Published On: Wed, Aug 12th, 2015

ملک اسحاق ایک کٹھ پتلی ، اصل کردار سیاسی لبادے میں!کیا سرپرستوں کا احتساب ہوگا ؟

Share This
Tags
بالآخر ملک اسحاق کا قصہ تمام ہوا اور مبینہ پولیس مقابلے میں اسکو دونوں بیٹوں اور ساتھیوں سمیت ہلاک کر دیا گیا.اسکے ساتھ ہی عالمی میڈیا پر تحریک طالبان افغانستان کے سربراہ ملا عمر کی ہلاکت کی خبر بھی نشر ہو گئی. حالات اور واقعات تیزی سے اس چیز کی نشاندہی کر رہے ہیں کہ ریجنل آرڈر اب تبدیل ہو رہا ہے.ملک اسحاق کی موت کی خبر پر اس سے پہلے کہ سپن وزرڈز آ کر اسے کوئی لسانی یا فرقہ وارانہ رنگ دیتے اچانک بی بی سی پر ملا عمر کی موت کی خبر چلا کر میڈیا کی توجہ بھی تقسیم کر دی گئی.
بہرحال ہم بات کر رہے ہیں ملک اسحاق کی عبرت ناک کہانی کی جسکا مرکزی کردار سیاست کا لبادہ اوڑھے شرفا کا نقاب پہنے بیٹھا ہے. ملک اسحاق لشکر جھنگوی کا بے تاج بادشاہ تھا جسے خوف اور دہشت کی علامت سمجھا جاتا تھا ۔ ١٩٧٩ میں بدترین ڈکٹیٹر جنرل ضیا الحق نے سعودی شاہی خاندان کے تعاون سے سپاہ صحابہ پاکستان کی بنیاد رکھی ۔ 1989 میں مولانا جھنگوی کے ساتھ ایک ملاقات کے بعد ملک اسحاق سپاہ صحابہ پاکستان میں شامل ہوگیا جو ضلع رحیم یار خان کے ایک چھوٹے سے قصبے سے تعلق رکھتا تھا اور اپنے باپ کے ساتھ کپڑے کی ایک دوکان چلاتا تھا۔ ضیا الحق کی ایک فضائی حادثے میں ہلاکت کے بعد سپاہ صحابہ پاکستان نے ملک کی سیاست میں زیادہ سے زیادہ حصہ لینا شروع کردیا فرقہ وارآنہ تشدد سے ہاتھ کھینچ کر سپاہ صحابہ پاکستان کو ایک سیاسی پارٹی کا تشخص دینے کی کوشش نے پارٹی میں اختلافات پیدا کردیے۔
ranaملک اسحاق نے ریاض بسرہ اور اکرم لاہوری کے ساتھ ملکر لشکر جھنگوی کے نام سے ایک علیحدہ عسکری جماعت تشکیل کرلی اور شیعہ فرقہ کے خلاف پرتشدد کاروائیوں میں مصروف ہوگئے۔ ٢٠٠٢ میں پولیس نے ریاض بسرہ کو پولیس مقابلہ میں ہلاک کردیا اور لشکر جھنگوی کی قیادت اکرم لاہوری اور ملک اسحاق کے ہاتھوں میں آگئ اکرم لاہوری ٢٠٠٢ سے جیل میں بند ہے۔ ملک اسحاق بھی ١٩٩٧ سے جیل میں بند تھا آخر کار عدم ثبوت کی بناہ پر 2012جیل سے چھوٹ گیا اور پاکستان میں شیعہ مخالف تشدد میں نہ صرف شدید اضافہ ہوگیا بلکہ اس نے ایک نئی شکل بھی اختیار کرلی۔ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں ایسے واقعات ہوے جن میں بسوں کو روک کر مسافروں کو اتارا گیا اور ان میں سے شیعہ مسافروں کو شناخت کرکے بے دردی سے قتل کیا گیا۔
ملک اسحاق کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ نجی محفلوں میں102 شیعہ مسلمانوں کے قتل کا اعتراف کیا کرتا تھا۔ پولیس حکام کے مطابق ٢٠٠٩ میں لاہور میں سری لنکا کی کرکٹ ٹیم پر ہونے والے حملہ کا ماسٹر مائینڈ بھی ملک اسحاق تھا جس کی منصوبہ بندی اس نے جیل میں بیٹھ کرکی۔ ہزارہ شیعہ کی نسل کشی میں بھی ملک اسحاق کی منصوبہ بندی اور آشیرباد سمجھی جاتی ہے۔
ایک رائے یہ بھی پائی جاتی ہے کہ ملک اسحاق کو ہمیشہ سے پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل تھی اور پنجاب حکومت پر ایک الزام یہ بھی تھا کہ اس کے جیل یاترا کے دوران حکومت اسکے خاندان کی مالی کفالت کرتی رہی۔ ملک اسحاق کی دہشت کا یہ عالم تھا کہ باوجود اس حقیقت کے کہ اس کے خلاف دوسو سے زائد قتل اغوا اور دہشت گردی کے مقدمات درج تھے جب وہ عدالت میں پیشی کے لیے آتا تو مقدمہ سننے والا جج اسے عدالت سے متصل اپنے نجی کمرہ میں بٹھاتا جہاں پر اس کی تواضع چائے اور بسکٹوں سے کی جاتی۔
ملک اسحاق کی موت سے شاید وقتی طور پر تو حکومت کے اوپر موجود بین الاقوامی اور قومی دبائو کم ہو جائے گا لیکن یہ دہشت گردی کے مسئلے کا حل نہیں۔ اور ایسا نظر آتا ہے کہ پس پشت طاقتوں نے ملک اسحاق کو ہلاک کر کے واضح طور پر مولانا لدھیانوی کے پلڑے میں اپنا وزن رکھ دیا ہے.مولانا احمد لدھیانوی کو اپنی جماعت میں ملک اسحق اور اسکے ساتھیوں سے مزاحمت کا سامنا تھا اور لدھیانوی صاحب اکثر معاملات پر اپنی گرفت کھوتے نظر آ رہے تھے ییاں یہ بیان کرنا بہت ضروری ہے کہ ملک اسحق نے چار سال قبل احمد لدھیانوی اور مسلم لیگ نون کے ایک اہم صوبائی لیڈر کے کہنے پر تشدد کا راستہ چھوڑ کر سیاست مٰیں آنے کا اعلان کیا تھا۔حکمران جماعت کے پنجاب سے تعلق رکھنے والے اس رہنما نے ملک اسحاق کی رہائی میں بھی کلیدی کردار ادا کیا تھا.ملک اسحاق نے رہائی کے بعد احمد لدھیانوی کے ساتھ ملکر سیاست کا آغاز کیا لیکن جلد ہی مولانا احمد لدھیانوی کی جماعت اسے اپنے لیے ایک خطرہ سمجھنے لگے اور یوں لدھیانوی اور ملک اسحق کے درمیان ایک سرد جنگ کا آغاز ہو گیا۔ ملک اسحق نے جماعت اہلسنت کی مرکزی شوری سے اپنی برطرفی کو چیلنچ بھی کیا اور لدھیانوی صاحب کی جماعت کو سیاسی اور مالی نقصان بھی پہنچانا شروع کر دیا۔ چنانچہ اس سرد جنگ کا خاتمہ ملک اسحاق کی ہلاکت کی صورت میں سامنے آیا۔
بہت سے لکھاری کالم نویس اور صحافی حضرات اسے دہشت گردی کے خلاف آپریشن میں ایک اہم کامیابی قرار دے رہے ہیں ۔ لیکن اگر آپ باریک بینی سے تمام شواہد اور حالات و واقعات کا موازنہ کریں تو اسکا ایک رخ اور بھی سامنے آتا ہے جو سیدھا ہمارے سیاستدانوں اور مذہبی شدت پسندوں کے گہرے اور دیرینہ تعلقات کی طرف واضح اشارہ دیتا ہے۔ ملٹری ملا الائنس پر تو اس ملک میں بہت شور مچایا جاتا ہے ہمہ وقت طنز و تنقید کے نشتر چلائے جاتے ہیں عسکری قیادت کو مورد الزام بھی ٹھہرایا جاتا ہے کہ انہوں نے ان عناصر کی پشت پناہی کی لیکن کیا وجہ ہے کہ سیاست دانوں کے شدت پسندوں کے ساتھ روابط اور تعلقات پر خاص توجہ نھیں دی جاتی ۔ ووٹ اور حکمرانی حاصل کرنے کی حرص میں جو سیاست دان ان عناصر کی پشت پناہی کرتے ہیں وہ آخر کیوں انصاف کے کٹہرے میں نہیں لائے جاتے ۔ ملک اسحاق جیسے کئی لوگ اور بھی ہوں گے جن کو پھر مذہب کے نام پر استعمال کر کے یہ سیاسی لوگ اپنا کھیل جاری رکھیں گے ایسے تمام سیاسی لوگ جو جمہوریت کے چیمپین بنے پھرتے ہیں کیا انکا جرم ملک اسحاق جیسے لوگوں سے کم ہے؟
غریب گھرانوں کے گمراہ نوجوانوں کو مذہبی شدت پسندی اور فرقہ واریت کی آگ میں جھونکنے والے یہ سیاستدان بھی تو دہشت گردوں سے کم نہیں ہیں۔ قرائن یہ لگتے ہیں کہ اب لدھیانوی صاحب کی خوبmalik ishaq associted پشت پنائی کی جائے گی اور ویسے بھی گزشتہ دنوں افغان طالبان کے ایک امیر نے کسی مسئلے پر انھیں ثالث بنا کر اپنا واضح پیغام پہنچا دیا تھا.اسلیے ملک اسحق کی پولیس مقابلے میں ہلاکت کوئی زیادہ اچھنبے کی بات نہیں.لیکن بات پھر وہیں پر آ کر رک جاتی ہے کہ آخر کب تک اسٹیبلیشمنٹ گڈ اور بیڈ کا یہ کھیل جاری رکھے گی.کیا لدھیانوی صاحب گڈ بکس میں شامل ہونے کے بعد اب مزید منافرت اور مذہبی لسانیت کا کھیل جاری رکھیں گے؟
میاں نواز شریف صاحب کو اب اس بات کا بھی فیصلہ کر لینا چاہیے کہ کیا وہ اپنی جماعت میں موجود ایسے عناصر سے جان نھیں چھڑوانا چاہتے ہیں جو مذہبی شدت پسندوں کو اپنے سیاسی فوائد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ غالبا شاید ہی کوئی باخبر آدمی ہو جسے ملک اسحاق اور مولانا لدھیانوی کی اس جنگ میں مسلم لیگ نون پنجاب کے اس اہم ترین رہنما کا نام نہ پتہ ہو جس نے اس مبینہ پولیس مقابلے مٰیں کلیدی کردار ادا کیا اور اب وہ لدھیانوی صاحب کو استعمال کر کے پھر چند سیاسی مفادات کی خاطر شدت پسندی کو فروغ دے گا۔ ہم لوگ اکثر تنقید کرے ہوئے یہ بھول جاتے ہیں کہ بھلے ہی ماضی میں عسکری قیادتوں سے اس معاملے میں غلطیاں سرزد ہوئی ہوں گی لیکن پھر بھی انہوں نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ہے جببکہ ہمارے سیاستدان اور بالخصوص پنجاب کے کچھ نامور نام ابھی بھی نہ جانے کیوں اس گھناونے کھیل سے باز نہیں آ رہے۔ اس گندے اور مکروہ سیاستدان اور ملا الائنس کی طرف بھی سول سوسائٹی دانشوروں اور صحافیوں کی نگاہیں جانی چاییے۔
ایک آمر جب ان لوگوں کا سہارا لیتا ہے تو بات سمجھ آتی ہے کہ اسے اپنے ناجائز اقتدار کو جائز بنانے کیلیے ان عناصر کی ضرورت ہوتی ہے لیکن ایک سیاستدان جو عوام کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور ووٹ کی طاقت سے کامیاب ہوتا ہے اس کا یہ گناہ سمجھ سے بالا تر ہے ۔ دہشت اور خوف یا مزہبی ایکسپلاپیٹیشن سے ووٹ لے کر کامیاب ہونا کونسی جمہورہے کا حصہ ہے . عالمی طاقتوں کے اشاروں پر فرینکسٹاین پالنے اور پھر انہی کے ہاتھوں زخم کھانے کا یہ سلسلہ نجانے کب بند ہو گا۔
اگر دہشت گردی کے خلاف جاری آپریشن کو منطقی انجام دینا ہے تو اس میں بلا تفریق کاروائی ہونی چاہیے آپ آج بھی اگر دہشت گردوں کے رد عمل سے ڈریں گے تو پھر شاید ہی اس عفریت سے جان چھڑوانا ممکن ہو۔ ہمارے سیاستدان بھی عجیب مصلحت پسندی کا شکار نظر آتے ہیں سعودی ایرانی پراکسی وار میں ہمارے بے گناہ عوام گنی پگز کی طرح مارے جاتے ہیں لیکن سیاستدانوں کو توفیق نھیں ہوتی کہ کبھی عوام کو اس سچ سے روشناس کروا دیں یا پھر ان دونوں ممالک سے کہیں کہ ہمارے وطن میں مذہبی انتہا پسندوں کی مالی معاونت بند کی جائے۔عالمی طاقتیں اپنا مفاد افغانستان کے امن سے مشروط دیکھتے پاکستان کی کئی کوتاہیوں پر چشم پوشی کر لیتی ہیں لیکن کیا ہم خود بھی اس مسئلے پر ایسے ہی چشم پوشی اختیار کیے رکھیں گے.ایران سے پیسے لے کر پاکستان میں مزہبی فرقہ واریت پھیلاتے افراد ہوں یا سعودی ریال پر پلنے والا گروہ یہ تو شاید ریال اور ڈالرز کے علاوہ کچھ بھی دیکھنے سے قاصر ہیں لیکن ہمارے پالیسی سازوں کو تو اب آگے کی حکمت عملی طے کرنی چاہیے اور ان عوامل پر بھی غور کرنا چاہیے جن کی وجہ سے ملک اسحاق جیسے شدت پسند جنم لیتے ہیں.ملک اسحاق تو ایک کٹھ پتلی تھا جو تماشا ختم ہونے پر اپنے انجام کو پہنچا لیکن اس کٹھ پتلی کی باگیں سنبھالنے والے مرکزی کردار جو ابھی بھی حکمران جماعت کا حصہ ہے اور پنجاب میں انتہائی اہم منصب پر فائز ہے کیا اس کا احتساب ہونے پائے گا۔ جب تک ایسی شخصیات سیاست کے لبادے میں چھپ کر قانون کی گرفت سے آزاد رہیں گی تب تک ملک اسحاق جیسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے اور اسی انجام سے دوچار ہوتے رہیں گے۔

تحریر: عماد ظفر

Leave a comment