Published On: Thu, May 19th, 2011

یہ ہےآج کاجاپان زلزلہ،سونامی،آگ،نیوکلیائی تابکاری اوربرف باری

ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی یافتہ ملک جاپان نے کئی ایک قسم کے روبوٹ بنائے ہیں اور وہاں ان کو آئے دن استعمال بھی کیا جاتا ہے لیکن نیوکلیائی توانائی کے پلانٹوں میں خطرناک جگہوں پر جہاں تابکاری انسانوں کو ہلاک کر سکتی ہے، کوئی روبوٹ استعمال نہیں کیا گیا

محمد یوسف مڑکی
وہ بھی ایک عام سی دوپہر تھی۔ زیادہ تر لوگ کھانے میں مصروف تھے کہ یکلخت ایک بھیانک زلزے سے زمین بہت طرح ہلنے لگی۔ عمارتیں اتنی شدت سے ڈولنے لگیں کہ لوگ چیختے چلاتے عارتوں سے باہر نکل پڑے۔ عمارتوں کے اندر برتن، اشیاء، چھتوں کی سیلنگ گرنے لگیں۔ منٹوں کے اندر دنیا کے ایک مصروف ترین شہر ٹوکیوں کے لوگ راستوں پر آ گئے۔
11 مارچ 2011 ء کو جاپان کی تاریخ کا سب سے بڑا زلزلہ آیا۔ ریکٹر اسکیل پر اس کی شدت 8.9 پائی گئی۔ زلزلے کے فوری بعد جاپان کے شمالی مشرقی ساحلی علاقے میں زبردست سونامی نے ساحل پر بسنے والوں کو حیرت میں ڈال دیا۔ اس سے پہلے کہ وہ یہ جان سکتے کہ کیا ہو رہا ہے یا کیا ہونے والا ہے، 20 تا 30 فٹ بلند پانی کی دیو ہیکل، طاقتور اور تیز رفتار دیوار نے انہیں آ لیا اور اس دیو ہیکل پانی کی دیوار کے سامنے جو کچھ بھی وہ سب یوں بہہ کر تہس نہس ہو گیا کہ گویا یہ کوئی عمارتیں، کاریں، گاڑیاں بلکہ اچھے خاصے بڑے بحریہ جہاز نہ ہوں بلکہ بچوں کے ہلکے پھلکے کھولنے ہوں۔ ٹی وی پر دکھائے گئے منظر سے تو دیکھنے والوں کو اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا تھا کہ کیا واقعی یہ سب کچھ حقیقت میں ہو رہا ہے۔ کیوں کہ ایسے مناظر کبھی دیکھنے میں نہیں آتے۔ بعض ناظرین کو ممکن ہے کہ یہ کسی فلم کے مناظر معلوم ہوئے ہوں لیکن قدرتی آفت کا یہ ایک ایسا منظر تھا جس میں انسان کی بے بسی اور کم مائیگی کی بھرپور عکاسی ہو رہی تھی۔ یہ مناظر دہشت ناک تھے۔ کیا ہم سوچ بھی سکتے ہیں کہ ان انسان کا کیا حشر ہو گا جو ان کاروں، گاڑیوں، مکانوں اور دفاتر اور کارخانوں میں تھے جن کو آن کی آن میں پانی کی ایسی مہیب دیوارنے اپنے نرغے میں لے لیا تھا کہ ابھی لمحہ بھر پہلے جیتے جاگتے ، ہنستے کھیلتے اپنے اپنے کام میں کھاتے پیتے اور تفریح مفں مصروف لوگ آن واحدہ میں لقہ اجل بن گئے۔
جاپانی لوگوں کے لئے زلزلے کوئی نئی بات نہیں ہیں وہ ان سے اچھی طرح مانوس ہیں۔ ان کو زلزلوں سے متعلق تعلیم بھی دی جاتی ہے اور یہ بھی سکھایا جاتا ہے کہ کسی بھیانک زلزلے کے آنے کی صورت میں وہ کیا کریں۔ کس طرح اپنا بچاؤ کریں۔ وہاں کی عمارتیں بھی ایسی ہی بنائی جاتی ہیں کہ زلزلوں کے اچھے خاصے جھٹکوں کو بھی وہ بآسانی برداشت کر لیتی ہیں لیکن ان ترقی یافتہ انسانوں کی تمام احتیاطی تدابیر و کوششیں وہ تمام سہولتیں اور ایمرجنسی اقدامات قدر تکے غضب ناک قہر کے آگے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ اس کا ثبوت 11 مارچ کے زلزلے اور سونامی سے واضح طور پر مل چکا ہے۔
امریکی جیا لوجیکل سروے کے مطابق 11 مارچ کا یہ زلزلہ 1900 ء سے لے کراب تک جاپان میں ریکارڈ کئے گئے زلزلوں میں سب سے شدید تھا اور دنیا کا پانچواں بڑا زلزلہ تھا۔ یہ زلزلہ جاپان کے شمال مرشقی ساحلی شہر سینڈائی کے مشرقی حصہ میں تقریباً 130 کلومیٹر دور سمندر کے فرش کے 24.4 کلومیٹر نیچے آیا تھا۔ جاپان کے صدر مقام ٹوکیوسے اس کا فاصلہ تقریباً 373 کلومیٹر تھا اور اس زلزلے سے پیدا ہونے والی سونامینے جاپان کے شمالی مشرقی ساحلی کے ایک بڑے حصہ پر زبردست تباہی مچائی۔ 11مارچ کو آئے اصل بڑے زلزلے کے بعد تقریباً 20 ایسے مابعد زلزلے جھٹکے بھی محسوس کئے گئے جن کی شدت ریکٹر اسکیل پر 6 یا اس سے زیادہ تھی۔
سونامی کیا ہے؟
سونامی دراصل جاپانی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں ’’ساحلی پانی کی موج‘‘ لیکن اسے پانی کی موچ کہنا درست نہیں ہے کیوں کہ سب سے پہلے تو موجیں عموماً اتنی بڑی ہوتی نہیں ہیں اور پھر وہ ساحل کے بری علاقوں کے اندر اس طرح دندناتی ہوئی نہیں آتی۔ یہ دراصل سمندری پانی میں اٹھی ہوئی ایسی خوفناک دیوار یا پہاڑ کی مانند ہوتی ہے جو ایک زبردست رفتار سے بری علاقوں میں گھس آتی ہیں۔ان میں بری علاقوں کو تباہ کرنے کی زبردست توانائی موجود ہوتی ہے۔ جاپان میں سونا میاں اکثر آتی رہتی ہیں۔ اب تک وہاں تقریباً 195 سونامیاں آ چکی ہیں۔
سونامی پیدا ہونے کی مختلف وجوہات ہو سکتی ہیں جن میں زلزلے سہر فہرست ہیں۔ ان کے علاوہ آتش فشاں کے پھٹ پڑنے ، زیر سمندر دھماکوں( بشمول زیر زمین نیوکلیائی دھماکوں کے) مٹی کے برڈے تودوں کے گرنے، زمین کے سرکنے اور آسمان سے بڑی جسامت کے شہاب ثاقت کے گرنے سے بھی سونامی پیدا ہو سکتی ہے۔ سونامی کو بعض اوقات مدو جذرب موج بھی کہا جاتا ہے جو درست نہیں ہے کیوں کہ سورج اور چاند کی کششی قوتوں سے سمندر میں بننے والے مدو جزری موجوں سے اس کا کوئی واسطہ نہیں پڑتا۔
جاپان دنیا کے سب سے فعال زلزلوی پٹی پر واقع ہے۔ اس زلزلوی پٹی کو بحرالکاہل آتشی حلقہ کہا جاتا ہے۔ اس حلقے میں زمین کی اوپری پرتوں کی وہ ٹھوس پلیٹیں (طبق) بحر الکاہل کے کور کے ساتھ ٹکراتی ہیں۔ ماہرین ارضیات نے تخمینہ لگایا ہے کہ اس علاقے میں بحر الکاہلی پلیٹ بغیر بحرالکاہل کے نیچے موجود زمینی پلیٹ مغرب کی جانب کھسک رہی ہے اور اس طرح یہ جاپان کے مشرقی ساحل کے قریب سمندر کی تہہ میں لمبی اور گہری دراڑ میں گھستی جا رہی ہے۔ یہ پلیٹ ہر سال اوسطاً تقریباً 9 سینٹی میٹر (3.5 انچ) حرکت کر رہی ہے لیکن اس کی یہ حرکت مسلسل نہیں ہے۔ جب دو پلیٹیں ایک دوسرے سے چیک جاتی ہیں تو اس کی یہ حرکت مسلسل نہیں ہے جب دو پلیٹیں ایک دوسرے سے چیک جاتی ہیں تو اس کی حرکت رک جاتی ہے اور اس دوران ان کے اندر توانائی جمع ہونے لگتی ہے اور جب حرکت کا آغاز ہوتا ہے تو اس میں شدت آ جاتی ہے جس سے بھیانک زلزلے اور سونامی جیسی آفتیں رونما ہوتی ہیں۔
ایک زمینی پلیٹ کے نیچے دوسرے پلیٹ کے گھس جانے کے عمل کو Subduction کہتے ہیں اور یہ عمل سارے آتشی حلقے کے علاقے میں چلتا رہتا ہے۔ جس کی وجہ سے اس علاقے میں زلزلے اور سونامیاں آتی رہتی ہیں۔ گزشتہ اکتوبر کو انڈونیشیا کے ساحل پر آیا زلزلہ بھی شامل ہے جس کی شدت 7.7 ناپی گئی تھی۔ بحر الکاہل کا آتشی حلقہ تقریباً 40 کلومیٹر طویل ہے اور اس کی شکل ایک گھڑ نعل (Horse shoe) سے ملتی جلتی ہے۔ یہ بحر الکاہل سمندر کی فرش پر موجود چٹانوں کے ایک سلسلہ پر مشتمل ہے۔ اس علاقہ میں اکثر و بیشتر زلزلے آتے ہیں اور آتش فشاں پھٹ پڑتے ہیں۔ دنیا میں آنے والے جملہ زلزلوں میں 90 فیصد اور بڑے زلزلوں میں 81 فیصد اسی علاقہ میں واقع ہوتے ہیں۔
جاپانی لوگ زلزلے کی دشت کو ناپنے کے لیے ریکٹر اسکیل استعمال نہیں کرتے۔ اس کے لیے ان کا اپنا ایک الگ پیمانہ ہے جس کو وہ شنڈو کہتے ہیں۔ اسی کو وہ عام طور استعمال کرتے ہیں۔ شنڈو دراصل کسی مقام پر محسوس ہونے والے زلزلے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے۔ یعنی اس مقام پر لوگ واقعتاً کیسا محسوس کرتے ہیں۔ (جب کہ ریکٹر پیمانہ زلزلے کی شدت کو ظاہر کرتا ہے یعنی زلزلے کے مرکز میں خارج ہونے والی توانائی کو ظاہر کرتا ہے)
شنڈو پیمانے میں ایک تاسات درجے ہوتے ہیں۔ درجہ ایک اس ہلکے زلزلے کو ظاہر کرتا ہے جب ایک جگہ ساکن لوگ محسوس کر سکتے ہیں اور یہ بتا سکتے ہیں کہ ہلکا جھٹکا واقع ہو رہا ہے۔ جب کہ سات درجے شنڈو کا مطلبہ زبردست زلزلہ ہوتا ہے۔ شنڈو دو تا چار درمیان درجے کے زلزلے کو بتاتے ہیں جس سے کوئی خاص نقصان نہیں پہنچتا۔ جب اشیاء گرنے لگیں تو شنڈوو پانچ شدت کا ہو گا اور اس سے بڑھ کر چھ اور ساتھ شنڈو بھیانک زلزلے کی غمازی کرتے ہیں۔
سونامی پیدا ہونے کا میکانزم
جب ساحل سمندر کے قریب سمندر کی تہہ میں زمینی پلیٹ دراڑ کی جانب یکلخت عمودی طور پر حرکت کرتی ہے تو اس حرکت سے اس سمندری تہہ کے اوپر موجود پانی کی بھاری مقدار بھی یکلخت ہٹ جاتی ہے۔ پانی کی ایک بہت بڑ مقدار کے اس طرح ہٹنے سے وہاں ساحل سمندر پر بہت بڑی موجیں پیدا ہوتی ہیں جو زبردست رفتار سے حرکت کرتی ہیں۔ جب یہ زمینی علاقوں کے اندر گھس آتی ہیں تو وہاں ساحلی علاقوں میں تباہی مچاتی ہیں۔ اس بار جاپان کے زلزلے میں پیدا سونامی کی موجیں جہاں قریب میں موجود جاپان کے مشرقی ساحل سے ٹکرائیں وہیں وہ مغرب کی جانب ایک طویل راستہ طے کر کے شمالی امریکہ کے مغربی ساحل سے بھی جا ٹکرائیں۔
اسی علاقہ میں اس سے پہلے بھی یعنی 1896 ء اور 1933 ء میں زلزلوں کے بعد سونامی آئی تھی۔ سونامی کا منظر بہت خیرت انگیز ہوتا ہے کیونکہ یہ کبھی کبھار ہی واقع ہوتی ہے۔ اس کی موج بھی بڑی عجیب اور منفرد ہوتی ہے۔ یہ نہ تو طوفانی موج کی طرح ہوتی ہے اور نہ ہی مدو جزر کی موج کی طرح لمبی ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ جب یہ بری علاقہ سے آ کر ٹکراتی ہے تو وہاں پر ماحولی اور جغرافیاتی تبدیلیاں پیدا کر دیتی ہے۔
زلزلوں کی پیش قیاسی
سائنسدانوں نے بہت سے شعبوں میں کامیابیاں حاصل کی ہیں لیکن زلزلوں کے سلسلے میں پیش قیاسی کرنے پر وہ اب تک کوئی مہارت حاصل نہیں کر سکے ہیں البتہ وہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ زمین کے وہ کونسے علاقے ہیں جہاں زلزلے آنے کے امکانات وتے ہیں اور یہ بھی کہ کتنی شدت کا زلزلہ اس علاقہ میں عموماً کس وقت کے دوران آ سکتا ہے۔ یہ تو محض پیش قیاسی ہوتی ہے۔ اس میں یقین کا عنصر زیادہ نمایاں نہیں رہتا۔ مثال کے طور پر جاپان کے علاقہ میں ایک زبردست زلزلہ آنے کی پیش قیاسی بہت برسوں پہلے کی جا چکی ہے جو خاص طور پر عین ٹوکیو کے نیچے یا اس کے پریب ہی آئے گا اور اس قدر بھیانک ہو گا کہ دنیا میں اب تک ایسا زلزلہ نہیں ایٓا۔ اس بار آیا زلزلہ وہ نہیں ہے جس کی ماہرین نے مذکورہ پیش قیاسی کی ہے۔
سونامی کی وارننگ
سائنسدانوں نے ایسی تکنیک ایجاد کر لی ہے کہ اس کی مدد سے وہ بتا سکتے ہیں کہ کسی علاقے میں زلزلہ آنے کے بعد وہاں سونامی آ سکتی ہے یا نہیں۔ اس کے لیے وہ یہ دیکھتے ہیں کہ کیا زلزلہ آنے کے بعد زمینی پلیٹ دراڑ کے پاس عمودی طور پر ہٹی ہے اور اگر یہ عموداً ہٹ گئی ہے تو اس ہٹاؤ سے پانی کی کتنی اونچائی متاثر ہوئی ہے۔ بحر الکاہل کے تہہ میں ان پیمائشوں کی مدد سے سونامی وارننگ نیٹ ورک کے ذریعہ سونامی آنے یا نہ آنے سے متعق عوام کو فوری آگاہ کیا جاتا ہے۔ جن علاقوں میں ممکنہ طور پر سونامی کے ٹکرانے کے اندیشے ہوتے ہیں اس علاقہ کے لوگوں کو بروقت اطلاع پہنچانابے حد اہم ہوتا ہے۔ بد قسمتی سے اگر زلزلہ ساحل سمندر سے بہت قریب ہو گا تو اس کی پیمائش کر کے تیزی کے ساتھ عوام تک اطلاع پہنچانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس بار جاپان میں زلزلہ آنے کے پانچ منٹ کے اندر ہی سونامی کی وارننگ وہاں کے عوام کو دی گئی اور یہ بھی بتایا گیا کہ سو نامی کی موج کتنی اونچی ہو سکتی ہے۔ جاپانیوں کو اس قدرتی آفت سے مقابلہ کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہنا پڑتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہاں کے لوگوں کو سونامی سے بچنے کی مشقیں کروائی جاتی ہیں۔
زلزلے ہی سونامی کیوں پیدا کرتے ہیں؟
اس سلسلہ میں کچھ عوامل اپنا رول ادا کرتے ہیں ان میں شامل ہیں زلزلے کی دشدت، زلزلے میں زمین کی پلیٹ کی حرکت کی سمت اور اس علاقہ میں سمندری فرش کی جغرافیائی ساخت، سونامی کے لیے زلزلے کی شدت کا آغازی حد سے زیادہ ہونا ضروری ہے۔ اس بار کی 8.9 درجے کی شدت سونامی پیدا کرنے کے لیے کافی تھی جب کہ گزشتہ اکتوبر میں انڈونیشیا میں آئے زلزلے کی شدت 7.7 تھی جو سونامی لانے کے لیے ناکامفی تھی ۔ 7.0 تا 7.5 شدت کے زلزلے بھی عموماً سونامی کا آغاز نہیں کرتے۔
زلزلوی علاقے میں کافی شدت سے زمینی پلیٹ کا حصہ جب دراڑ کا نیچے کھسکتا یا اوپر اٹھتا ہے تو سونامی پیدا ہونا لازمی ہو جاتا ہے۔ یعنی سمندر کے فرش کا ایک بڑا حصہ عمودی طور پر حرکت کرتا ہے۔ یعنی یا تو اوپر اٹھتا ہے یا نیچے ہو جاتا ہے۔ اس حصہ کے اوپر موجود پانی کا ذخیرہ یکلخت نیچے اوپر ہو جاتا ہے جس سے سونامی کی بھیانک موچ پیدا ہتی ہے۔ اس میں زبردست توانائی ہوتی ہے۔ خوش قسمتی سے اگر زمینی پلیٹ افقی طور پر عمودی حرکت کرتی ہے تو اسے عموماً سونامی کی موج پیدا نہیں ہوتی۔
نیوکلیائی تابکاری کے بھیانک اثرات
زلزلوں اور سونامی کی قدرتی آفات کے نتیجے میں جاپانیوں کو فوکوشیما نیوکلیائی پلانٹ سے نیوکلیائی تابکاری کے اخراج کا خطرہ بھی لاحق ہو گیا ہے۔ یہ خطرہ انسانوں کی اپنی بنائی ہوئی سہولتوں سے ابھرا ہوا ہے۔ یہ مصنوعی آفت ہے۔ توانائی پیدا کرنے کے لیے لگائے گئے نیوکلیائی پلانٹوں میں نیوکلیائی سلاخوں کو ٹھنڈا کرنے کے نظام کے ناکام ہو جانے سے یہ سلاخیں گرم ہو کر اپنے اندر سے نیوکلیائی ذرات خارج کرنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ سے نیوکلیائی ذرات خارج کرنے لگے ہیں۔ اس کی وجہ سے نیوکلیائی پلانٹ کے قریب و جوار میں بسنے والوں کو دور چلے جانے کے احکامات دئیے گئے ہیں۔ نیوکلیائی مادوں کے ذرات سے نکلنے والی شعاعوں کی دو خطرناک خصوصیات ہوتی ہیں۔ اول یہ کہ وہ روشنی کی شعاعوں کی طرح انسانوں کو دکھائی نہیں دیتیں، دوم یہ کہ جب یہ انسانوں کے جسم پر پڑتی ہیں تو جسم کے خلیوں میں موجود کرموزومس کو بگاڑ دیتی ہیں جس سے متاثرہ لوگ کئی بیماریوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ان کا مدالعنی نظام خراب ہو جاتا ہے اور یہاں تک کہ وہ کینسر جیسی بیماری کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اس سلسلہ میں دلچسپ حقیقت یہ ہے کہ ٹیکنالوجی میں زبردست ترقی یافتہ ملک جاپان نے کئی ایک قسم کے روبوٹ بنائے ہیں اور وہاں ان کو آئے دن استعمال بھی کیا جاتا ہے لیکن نیوکلیائی توانائی کے پلانٹوں میں خطرناک جگہوں پر جہاں تابکاری انسانوں کو ہلاک کر سکتی ہے، کوئی روبوٹ استعمال نہیں کیا گیا۔ ایسے پلانٹوں میں صرف انسانی خدمات ہی پر اکتفادہ کیا گیا۔
اگر کسی شخص کو شدید تابکاری سے سابقہ پڑتا ہے تو اس کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا ہے۔ اس کے لیے شدید نوعیت کی طبی مدد یا پھر ہڈی کے گودے کی تبدیلی کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔ شدید پیچیدگیوں کی صورت میں متاثرہ شخص کے پاس محض 3 تا 4 دن ہی ہوتے ہیں۔ اس دوران اسے طبی مدد حاصل کر لینا لازمی ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس بار 27 یورپی ممالک میں موجود 500 ایسے مراکز میں سہولتوں کو تیار رکھا گیا جہاں ہڈی کے گودے کی تبدیلی کی جا سکتی ہے۔ یورپی ممالک کے گروپ نے جاپانی حکومت اور عالمی ادارہ صحت کو یہ پیشکش کی۔ تابکاری خاص طور پر ہڈی کے خلیوں کو ختم کر دیتی ہے۔ اس سے متاثرہ شخص کا بیماریوں سے لڑ کر خود کو صحت مند رکھنے کا نظام یعنی Immune system بگڑ سکتا ہے۔ اس سے وہ مختلف بیماریوں اور صحت کے مسائل سے دوچار ہونے لگتا ہے۔ مختلف اعضاء تابکاری کو جذب کرتے ہیں جییس تھائرائیڈ، پھیپھڑے، پیٹ، آنتوں کے علاوہ خون اور ہڈی کا گودا وغیرہ۔
زلزلے سے زمین کے محور پر اثر
زلزلے نے زمین کے ساختی محور Figure Axes کو تقریباً 17 سینٹی میٹر بنا دیا ہے۔ آپ نے اس سے متعلق اخبارات میں پڑھا ہو گا اور ٹیلی ویژن پر سنا ہو گا لیکن ہم یہاں پر بتا دینا چاہتے ہیں کہ یہ وہ محور نہیں ہے جس کے گرد زمین گھومتے ہوئے خلاء میں سورج کے اطراف گردش کرتی ہے۔ زمین کے اس محور میں تبدیلی صرف اجسام کی تجاذبی قوت کے زیر ہی واقع ہو سکتی ہے۔ ایسے فلکی اجسام میں سورج، چاند اور دوسرے سیارے۔ زمین کے ساختی محور میں قدرے تبدیلی سے زمین کچھ الگ طرح سے اور خفیف طور پر ڈولتے یا ہلتے جلتے خلاء میں اپنا سفر جاری رکھتی ہے۔ تا ہم واضح رہے کہ خلاء میں اس کا راستہ بدلتا نہیں ہے!
اسی طرح یہ بھی آپ نے سنا ہو گا کہ زلزلے سے زمین کچھ تیزرفتاری سے گھومنے لگی ہے جس سے دن کا عرصہ 1.8 مائیکرو سیکنڈ کم ہو گیا ہے۔ واضح رہے کہ ایک مائیکرو سیکنڈ کا مطلب ہے کہ ایک سیکنڈ کا ایک ملینواں حصہ ہے۔ (ایک ملین کا مطلب ہے دس لاکھ) اس طرح یہ وقت کا بہت ہی چھوٹا عرصہ ہے۔ ایسی تبدیلیاں تو واقع ہوتی رہتی ہیں۔ یہ نہ صرف زلزلوں سے بلکہ فضائی تبدیلیوں اور سمندری لہروں کے زیر اثر بھی ہوتی رہتی ہیں۔ یوں بھی ایک سال کے عرصہ میں ایک دن کا وقفہ ایک ملی سکینڈ بڑھتا اور گھٹتا رہتا ہے۔ یہ تبدیلی جاپانی زلزلے کے مقابلہ میں تقریباً 550 گنا زیادہ ہوتی ہے۔ اسی طرح زمین کا ساختی محور بھی ایک سال میں تقریباً 3.3 فیٹ تک بدلتا رہتا ہے۔ (ان تبدیلیوں سے ہمیں پریشان ہونے کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔)

Leave a comment