Published On: Fri, Apr 22nd, 2011

امن لشکروں اور طالبان کے درمیان نہ ختم ہونے والی جنگ

Share This
Tags

پولیس کی طرف سے تحریک طالبان اویزئی اور درہ آدم خیل کو ’’مشرف کے سپاہی‘‘ کہا جاتا جب کہ ’’کالعدم لشکر اسلام‘‘ کو حکومت کے لوگ جہا جاتا ہے۔ اس کے مقابلے میں عسکریت پسندوں نے صاف صاف اپنا ایجنڈا واضح کر دیا اور وہ یہ تھا کہ ان کا ٹارگٹ پولیس اور فوج ہیں۔

ریاض احمد
9 مارچ 2011 ء کو ادیزئی میں نماز جنازہ کے اجتماع پر ہونے والا خودکش حملہ دو سالوں کے دوران پشاور کی تاریخ کا سب سے خونی دھماکہ تھا جس میں سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 41 افراد مار گئے جب کہ امن لشکر کے ذرائع کے مطابق اس میں کم از کم 43 افراد جاں بحق ہوئے۔
اویزئی گاؤں میں طالبان مخالف امن لشکر کا قیام 2008 ء میں جولائی میں عمل میں لایا گیا تھا۔ دراصل ان عسکریت پسندوں کی طرف سے دھڑا دھڑ پولیس سٹیشن پر رات کے وقت حملے کئے جاتے تھے اور پولیس عسکریت پسندوں کے حملے روکنے میں بری طرح ناکام ہو چکی تھی جس کے بعد پولیس نے پاک فوج کی مدد سے عسکریت پسندوں کے کسی بھی اجتماع پر توپوں کے ذریعے گولہ باری کا پروگرام بنایا تا ہم جس رات تجرباتی طور پر اس منصوبے کو عملی جامہ پہنایا گیا اسی رات ایک گولہ جو عسکریت پسندوں کو نشانہ بنانے کے لئے داغا گیا تھا ایک قریبی مکان پر جا گرام جس میں رات 11 بجے 1 بچی اور 3 خواتین جاں بحق ہو گئیں۔ ان دنوں درہ آدم خیل میں بھی آپریشن جاری تھا اور لوگ اپنا گھر بار چھوڑ کربھاگ رہے تھے۔ اس لئے اویزائی کے لوگوں نے بھی مسجد میں اکٹھے ہو کر درہ طرز کے کسی ممکنہ آپریشن سے بچنے کیلئے خود ہی لشکر بنا کر عسکریت پسندوں کی نقل و حرکت ختم کرنے کا فیصلہ کیا۔
شروع شروع میں کسی نے بھی اس لشکر کو سنجیدگی سے نہیں لیا کیونکہ ان دنوں حاجی عبدالمالک جیل میں تھے لیکن جب وہ جیل سے رہا ہوئے تو لشکر میں گویا جان پڑ گئی جس کے بعد تحریک طالبان اویزائی نے انہیں 7 روز کے اندر لشکر ختم کرنے کا الٹی مٹیم دیا جس کے پوسٹر دیواروں پر آویزاں کئے گئے تھے لیکن جب انہوں نے لشکر ختم نہیں کیا تو ایک رات ان کے گھر پر ایک زبرست حملہ کیا۔ یہ اویزائی کے لوؤں اور عسکریت پسندوں کے درمیان ہونے والا دوسرا معرکہ تھا جس میں دونوں طرف سے جانی نقصان ہوا۔
24 جنوری 2009 ء کو طالبان نے کراچی میں کیماڑی کے علاقے میں شیرین جناح کالونی میں امن لشکر کے کما نڈر دلاور خان کے بھائی حاجی عبدالمنان کو گولی مار کر قتل کر دیا ی،ہ تحریک طالبان درہ آدم خیل کی طرف سے ٹارگٹ کلنگ کی پہلی وادات تھی اور انہوں نے اپنے ایف ایم ریڈیو پر اس کی باقاعدہ ذمہ داری قبول کی۔ 8 نومبر 2009 ء کو امن لشکر کے رہنما حاجی عبدالمالک اس وقت خودکش حملے میں جاں بحق ہو گئے جب وہ عید سے قبل اپنے گھر کے نزدیک منڈی میں قربانی کیلئے جانور دیکھنے آئے ہوئے تھے اس حملے میں 23 لوگ مارے گئے جن میں امن لشکر کے ایک اور سرکردہ کمانڈر حاجی علی احمد اور حاجی مراد بھی شامل تھے۔ طالبان کو کئی ناکامیوں کے بعد 23 اگست 2010 ء کو ایک اور اہم کامیابی اس وقت ملی جب ان کے ریمورٹ کنٹرول بم حملے میں حاجی عبدالمالک کا بھانجا اور امن لشکر کی اہم شخصیت اسرار جاں بحق ہوئے اور ان کے دو اور دوست بھی حملے میں مارے گئے۔ یکم مارچ 2011 ء کو طالبان نے دلاور خان کے گھر پر رات کے وقت حملہ کیا اور اس مہینے کی 9 تاریخ کو اس جنازہ پر خودکش حملہ ہوا جس میں دلاور کی شرکت متوقع تھی۔
پشاور کی سطح پر دوسرا اہم اور بڑا امن لشکر بازید خیل گاؤں میں بنایا گیا جہاں پر کالعدم لشکر اسلام کے 9 افراد 4 فروری 2009 ء کو اس وقت ایف سی اور مقامی دیہاتیوں کے ہاتھوں مارے گئے جب انہوں نے ناظم فہیم الرحمان کو اغواء کرنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں 17 فروری 2009 ء کو ناظم فہیم کے گھر کے نزدیک ایک زبردست کار بم دھماکہ ہوا جس میں 5 افراد جاں بحق اور 35 زخمی ہوئے۔ اگرچہ لشکر اسلام نے اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا تا ہم اس کی ایف آئی آر لشکر کے خلاف ہی درج کی گئی۔
واضح رہے کہ اس سے پہلے ڈپٹی سپیکر خوشدل خان ایڈوویکٹ نے بڈھ بیر، ٹیلہ بند، ماشگوگر، ماشو خیل اور دیگر علاقوں میں سکولوں کو اڑانے کے واقعات کے بعد علاقے کے لوگوں کو اکٹھا کر کے امن لشکر بنانے کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ ان لشکروں کو تھوڑی تعداد میں کلاشنکوف رائفلیں بھی دی گئیں لیکن اس کے باوجود یہ امن لشکر بنیادی طور پر غیر فعال ہی رہے ۔ اس کے ممبران کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ پولیس نے ان سے کلاشنکوف رائفلیں واپس لے لی تھی جب کہ بعض نے اپنی بندوقیں فروخت کر دی تھی۔
بازید خیل اور ادیزئی کے چند مشہور اور معروف لوگ جب حالات کے ہاتھوں مجبور ہو کر عسکریت پسندوں کے خلاف میدان میں کودے تو پولیس نے ان کو خوش آمدید کہا کیونکہ حکومت اور پولیس عسکریت پسندی کی لہر کے سامنے مکمل طور پر بے بس ہو چکی تھی شام کا اندھیرا چھانے کے بعد فوجی علاقوں میں حکومت کی رٹ مکمل طور پر ختم ہو جاتی ہے اور عسکریت پسندوں کی عملداری قائم ہو جاتی تھی وہ کوہاٹ روڈ، ورسک روڈ، پنجگی روڈ، پاڑہ اور دیگر علاقوں میں آزادانہ گھومتے پھرتے تھے۔
پولیس کی بے بسی کا ایک زمانے میں یہ عالم تھا کہ ایک عسکریت پسند تنظیم کی طرف سے مقامی ایس ایچ او اور ڈی ایس پی کو فون کر کے پہلے باقاعد ہ اطلاع دی جاتی تھی کہ ان کے رضا کار بندوبستی علاقے آرہے ہیں وہ آپ کوکچھ نہیں کہیں گے اور آپ کی طرف سے بھی تعاون ہونا چاہیے یوں وہ لوگوں کو پولیس کی موجودگی میں بندوبستی علاقوں سے اغواء کر لے جاتے تھے۔ پولیس کی طرف سے تحریک طالبان اویزئی اور درہ آدم خیل کو ’’مشرف کے سپاہی‘‘ کہا جاتا تھا جب کہ ’’کالعدم لشکر اسلام‘‘ کو حکومت کے لوگ جہا جاتا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پولیس فورس ان دونوں سے کس حد تک خائف تھی اور اس کا مورال کس حد تک گر چکا تھا۔ اس کے مقابلے میں تو عسکریت پسندوں نے صاف صاف اپنا ایجنڈا واضح کر دیا تھا اور وہ یہ تھا کہ ان کا ٹارگٹ پولیس اور فوج ہیں۔
اویزئی اور بازید خیل میں امن لشکروں کے قیام کے بعد پولیس نے سرتوڑ کوشش کی کہ ہر علاقے میں امن لشکر کا قیام عمل میں لایا جائے تا ہم اسے خاطر خواہ کامیابی نہیں ملی۔ حاجی مالک، دلاور اور فہیم الرحمان ایسے لوگ تھے جنہوں نے اپنے عمر دشمنیاں کرتے ہوئے گزار دی تھی۔ ان کے اپنے خاندانوں کے کئی لوگ ان دشمنوں کی ندر ہو گئے تھے اور عسکریت پسندوں، چاہے وہ طالبان ہوں یا کالعدم لشکر اسلام کی دشمنی بھی ان لوگوں کیلئے کوئی نئی تھی۔
عسکریت پسندی کے خلاف اس جنگ میں ان کی شمولیت نے پولیس کے حوصلے بھی بلند کئے ایک ایسا وقت بھی آیا کہ جب پولیس بھیرات کے اندھیرے میں گشت کرتی ہوئی کتراتی تھی لیکن بازید خیل امن لشکر کے رضا کار رات 9 بجے سے لے کر 12 بجے تک شیخان را چینی اور دیگر علاقوں میں گشت کرتے تھے۔
لشکروں نے عسکریت پسندوں کے مخالفین کے ساتھ مل کر مخبری کا ایک جامع نظام ترتیب دیا ۔ان کی مدد سے پولیس نے کئی بم دھماکوں کا بروقت پتہ لگا کر انہیں ناکام بنایا ۔ یوں جو کام پولیس کو کرنا چاہئے تھا وہ کئی سال تک امن لشکر سر انجام دیتے رہے۔
پولیس بنیادی طور پر قانون نافد کرنے والا ادارہ ہے اور یہ پولیس کا فرض تھا کہ عسکریت پسندی کے مسئلے سے خود ہی نمٹتی لیکن جب پولیس نے اپنا کام بھی امن لشکروں کے سپرد کر دیا تو اس سے بے شمار مسائل نے جنم لیا۔ مثال کے طور پر امن لشکر کے بعض ارکان جب شہر میں گھومتے تو درجنوں مسلح افراد بھی نقاب پہن کر یا چہرہ ڈھانپ کر اسلحہ کی نمائش کرتے ہوئے ان کے ہمراہ ہوتے جس سے کئی دفعہ یہ تاثر پیدا ہوا کہ جیسے عسکریت پسند دن دیہاڑے شہری علاقوں میں گھومتے پھرتے ہیں اور پولیس ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتی۔
مشہور ماہر امراض معدہ حیات آباد میں ایک ایسے شخص کے گھر سے برآمد ہوئے جو امن لشکر کا سرکردہ رکن تھا اور اسے پولیس کی طرف سے یہ اختیار دیا گیا تھا کہ وہ عسکریت پسندوں کو پکڑنے کے بعد اپنی تحویل میں رکھ سکتا ہے تا ہم اس شخص نے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پہلے ایک افغان تاجر اور بعد میں ڈاکٹر سہیل کو اغواء کیا چونکہ پولیس بھی اس کیس میں غفلت کی مرتکب ہوئی تھی اس لئے اس نے بھی اس واقعہ کو زیادہ ہوا نہیں دی۔
بعد میں پولیس کو بھی یہ اندازہ ہو گیا تھا کہ اس نے امن لشکروں کو پولیس کے اختیارات تفویض کر کے غلطی کی ہے۔ اس لئے کمیونٹی پولیس کا ڈول ڈالا گیا صرف متنی میں 135 افراد کو 2 سال کے کنٹریکٹ پر بھرتی کیا گیا جب کہ بڈ پیر میں بھی اتنے ہی افراد کمیونٹی پولیس میں لئے گئے۔ اس کے مقابلے میں امن لشکروں کی اپنی شکایات ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ جس طرز کا فری ہینڈ عسکریت پسندوں کو حاصل ہے وہ انہیں کبھی نہیں دیا گیا۔ حکومت نے ان کے نقصانات کو پورا کرنے کی کبھی کوشش نہیں کی جب کہ حکومتی اہلکا روں کو صرف اور صرف وقت گزارنے اور نوکری کرنے سے مطلب ہے وہ مسائل کو حل نہیں کرنا چاہتے ہیں۔ مثال کے طور پر انہیں اپنے رضا کاروں کے لئے کھانے پینے کا خرچہ اور گاڑیوں کے ڈیزل اور پٹرول چاہیے اگر وہ عسکریت پسندوں سے مقابلے میں ایک ہزار کارتوس فائر کرتے ہیں تو حکومت انہیں 100 کارتوس بھی نہیں دیتی اور انہیں عسکریت پسندوں کے خلاف جنگ میں دھکیل کر تنہا چھوڑ دیا گیا ہے۔ امن لشکروں میں شامل بعض افراد اور عسکریت پسندوں کا ہر جگہ پیچھا کرنا چاہتے ہیں لیکن پولیس انہیں اپنے علاقے تک محدود رکھنا چاہتی ہے۔
گزشتہ ہفتہ ہونے والے خود کش حملے میں 41 افراد کے جاں بحق ہونے کے بعد حکومت اور پولیس پر تنقید کا عمل بڑھ گیا ہے اور عام تاثر یہی ہے کہ یا تو حکومت اور پولیس کو امن لشکر تشکیل ہی نہیں دینے چاہئیں تھے یا اگر ان کو بنا دیا گیا ہے تو اب ان کی مکمل سپورٹ ملنی چاہیے۔
تاہم ایسا لگتا ہے کہ عسکریت پسندوں کی پے در پے کامیابیوں اور حکومت سے مایوس ہونے کے بعد وقت کے ساتھ ساتھ امن لشکروں کے لئے عوامی سپورٹ میں کمی آتی جائے گی۔ بازید امن لشکر پہلے ہی سے غیر فعال ہو چکا ہے اور اس کی بڑی وجہ امن لشکر کے رہنما شوکت کے گھر پر ایس پی کینٹ کی طرف سے مارا جانے والا چھاپہ ہے جب کہ اویزئی امن لشکر جس نے بہت زیادہ قربانیاں دی ہیں اس کے کمانڈر دلاور بھی حکومت سے کچھ زیادہ خوش نہیں ہیں۔
مشکل ترین ٹاسک
طالبان کی دشمنی یقیناً کوئی آسان کام نہیں ہے اور اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ اپ تک اویزئی گاؤں کے 80 افراد بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بن چکے ہیں اور طالبان نے ان کی کروڑوں روپے کی عمارتیں، گاڑیاں اور دکانیاں بم رکھ کر تباہ کی ہیں، اور اب تک اویزئی گاؤں پر 15 بڑے بڑے راکٹ حملے ہو چکے ہیں۔ اویزئی امن لشکر پر 2 خودکش حملے اور 3 بڑے ریمورٹ کنٹرول بم حملے ہو چکے ہیں۔ جب کہ 2بم حملے قبل از وقت پتہ چلنے سے ناکام ہوئے ۔ ان حملوں میں حاجی عبدالمالک، اسرار، علی احمد اور میر باز جیسے اہم لوگ مارے جا چکے ہیں اس طرح بازید خیل کے 5 لوگ بم دھماکے میں جاں بحق ہوئے اور بازید خیل کے کاریگروں کو باڑہ خیبر ایجنسی میں کام کرتے ہوئے شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

Leave a comment