Published On: Tue, Jul 28th, 2015

لیڈی گارڈز کی بھرتیوں کاشرمناک سکینڈل، بھرتیاں نہیں کرنی تھیں تو پیسے کیوں بٹورے؟ درخو است گزاروں کا سوال، انتظامیہ دوبارہ پیسے کمانے کی خواہش مند

Share This
Tags
جی سی یونیورسٹی فیصل آباد میںچھ ماہ قبل اُس وقت لیڈی گارڈز کی بھرتیوں کے لیے درخواستیں موصول کرنے کا فیصلہ کیا گیا جب دسمبر میں پیش آنے والے سانحہ پشاور کے بعد مُلک بھر میں امن و امان کی صورتِ حال انتہائی مخدوش تھی اور تمام تعلیمی اداروں کو غیر معینہ مدت کے لیے بند کر دیا گیا تھا۔
فیصلے کے تحت لیڈی گارڈز کی 12 آسامیوں پر بھرتی کے لیے تمام قومی و مقامی اخبارات میں اشتہارات دئیے گئے جس کے نتیجے میں انتظامیہ کو لگ بھگ 2 سو درخواستیں موصول ہوئیں۔
لیکن کیا اُس وقت یہ فیصلہ جذبات یا کسی دباؤ کے تحت کیا گیا تھا؟
کیونکہ بھرتیوں کا سلسلہ 6 ماہ کا طویل عرصہ بیت جانے کے باوجود اب تک پایہ تکمیل کو نہیں پہنچ سکا جس کے باعث درخواست گزاروں کے ساتھ ساتھ مرد گارڈز کی باقاعدہ چیکنگ سے پریشان طالبات اور خواتین اساتذہ بھی سراپا lady guardاحتجاج ہیں۔
واضع رہے کہ نویں سکیل کی ان بھرتیوں کے لیے ہر اُمیدوار نے پروسیسنگ فیس کے طور پر 1 ہزار روپے یونیورسٹی کے پنجاب بنک کے اکاؤنٹ نمبر 4-1247 میں جمع کروائے تھے۔
یعنی اس مد میں یونیورسٹی نے اُمیدواروں سے قریب قریب 2 لاکھ روپے اکھٹے کیے۔
انتظامیہ کے مطابق درخواستوں کی وصولی کے بعد بھرتیوں کا عمل شروع کرتے ہوئے پہلے مرحلے میں 65 اُمیدواروں کو شارٹ لسٹ جبکہ دوسرے مرحلے میں 35 کے میڈیکل ٹیسٹ کروائے گئے تھے تاہم بعد میں چند وجوہات کی بنا پر یہ سلسلہ روکنا پڑا۔
لیڈی گارڈز کی بھرتی کے لیے یونیورسٹی نے پروسیسنگ فیس کی مد میں اُمیدواروں سے لگ بھگ 2 لاکھ روپے کی خطیر رقم اکھٹی کی
یونیورسٹی کے چیف سکیورٹی آفیسر ڈاکٹر حضور صابر نے بتایا کہ انہیں طلباء کی جانب سے سکیورٹی مسائل سے متعلق سینکڑوں درخواستیں موصول ہوتی رہتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ خواتین گارڈز نہ ہونے کی وجہ سے مرد گارڈز بھی اپنے فرائض ٹھیک طریقے سے سر انجام نہیں دے پاتے کیونکہ یونیورسٹی میں طالبات کی تعداد طلبہ سے کئی گُنا زیادہ ہے”۔
انہوں نے مزید بتایا کہ وہ ان بھرتیوں کے لیے کئی بار سلیکشن بورڈ کو درخواستیں کر چکے ہیں تاہم یہ معاملہ تاحال جوں کا توں ہے۔
درخواست گُزار کلثوم علی کہتی ہیں کہ بھرتیوں سے متعلق جب بھی انتظامیہ سے بات کی جائے مایوس کُن جواب ملتا ہے اور یہ کہہ کر ٹرخا دیا جاتا ہے کہ “بھرتیوں کا عمل جلد مکمل ہو جائے گا، آپ بار بار پوچھ کر ہمیں تنگ مت کریں”۔
انھوں نے بتایا کہ درخواست کی 1 ہزار روپے پروسسنگ فیس کے ساتھ ساتھ وہ میڈیکل ٹیسٹ کے لیے بھی 2 ہزار روپے خرچ کر چُکی ہیں۔ اگر بھرتیاں نہیں کرنی تھیں تو بیروزگار خواتین سے پیسے کیوں بٹورے گئے؟
سلیکشن بورڈ کے انچارچ ڈاکٹر زبیر کہتے ہیں کہ بھرتیاں تاخیر کا شکار نہیں بلکہ انھیں 2 سو خواتین میں سے ایسی کوئی خاتون ملی ہی نہیں جسے گارڈ کے طور پر یونیورسٹی میں تعینات کیا جا سکے۔
اُمیدواروں میں سے کوئی بھی خاتون ہمارے معیار پر پورا نہیں اُتری اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ ان بھرتیوں کے لیے بہت جلد دوبارہ اشتہار دے کر درخواستیں وصول کی جائیں گی۔”

رپورٹ: مروہ عنتر

Leave a comment