Published On: Fri, Apr 22nd, 2011

کیا مشرق وسطی میں نئے دور کا آغاز ہو رہا ہے؟

ممکن ہے کہ یہ مسلم دنیا میں نظام کے بجائے چہروں کی تبدیلی
کی کوئی سازش ہو،ایسا ہوا تو یہ بری خبرہوگی 
 

ڈاکٹر غطریف شہباز ندوی
تیونس سے اٹھے عرب عوامی انقلاب کے طوفان میں دیکھتے ہی دیکھتے دو عرب آمروں کے تخت و تاج بہہ گئے۔ شروعات یونس کے آمر زین العابدین سے ہوئی، اس کے بعد مصر میں انقلاب آیا، اور 30 سال سے چلے آنیوالے حسنیٰ مبارک کا استبدادی نظام بکھر گیا۔ تیونس سے جس عوامی انقلاب کا شرار پھوٹا وہ اب جنگل کی آگ کی طرح پورے عالم عرب کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ مصر میں حسنیٰ مبارک کے زوال کے ساتھ ہی بحرین، یمن، الجزائر، اردن، سیریا اور لیبیا میں زبردست عوامی لہر اٹھ رہی ہے۔ جس نے عرب آمروں اور ڈکٹیٹروں کے خلاف مظاہرے شروع کر دئیے ہیں۔ اب عرب شاہوں اور آمروں کی نیند حرام ہو رہی ہے۔ لیبیا کے کرنل معمر قذافی کے خلاف باقاعدہ بغاوت ہوئی اور باغی لیبیا کے دوسرے بڑے شہرن بن غازی سمیت کئی اہم شہروں پراپنی حکومت قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ بالآخر عالمی برادری حرکت میں آئی۔ یو این اونے لیبا میں نو فلائی زون کا نفاذ کا اعلان کیا اور اس کے بعد امریکہ فرانس اور ناٹو کے دوسرے ارکانے نے متحدہ طور پر قذافی کے خلاف فوجی کارروائی شروع کر دی۔ میزائل باری اور فضائی حملوں میں یقینی طور پر بہت سے معصوم شہری بھی مارے جا رہے ہیں۔ دوسرے وہ علاقے جو عوامی انقلاب کی زد میں ہیں۔ ان میں یمن بھی شامل ہے جہاں صد علی عبداللہ صالح کئی دہائیوں سے حکمرانی کر رہے ہیں۔ یمن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ عرب انتہا پسندی کی جڑ ہے کیوں کہ اسامہ بن لادن کا وطنی تعلق اصلا یمن سے ہی ہے۔ اس کا قبیلہ یمن میں ہی رہتا ہے۔ صدر علی عبداللہ صالح پر الزام ہے کہ وہ خط میں امریکی مفادات کا تحفظ کرتے ہیں ۔ اس لیے اس کے منظور نظر ہیں۔ موصوف نے مغر ب کے اشارہ پر بیک جنبش قلم 15 ہزار مکاتب اور اسلامی دینی مدارس بند کر دئیے تھے۔
چوتھا بڑا پڑاؤ سعودی عرب سے بالکل ملا ہوا بحرین ہے جو اگرچہ عالم عرب کا سب سے چھوٹا ملک ہے حتی کہ کویت سے بھی چھوٹا۔ جہاں سنی اقلیت حکمران ہے۔ سعودی عرب بحرین کے انقلابی شورش پسندوں سے اپنے لیے خطرہ محسوس کرتا ہے۔ کیونکہ انقلاب کی فطرت میں توسیع اور اپنے اثرات کو پھلانا ہوتا ہے۔ پھر ہم مسلک کی بنا پر بحرین کی اکثریت ایران کے کٹر شیعہ حکومت کی پوری حامی ہے۔ اس کے مفادات کا تحفظ چاہتی ہے اور ایرانی اثرات وہاں بڑھ رہے ہیں ۔ مغرب کے لیے اس کی اہمیت یہ ہے کہ امریکہ کا ایک اہم اڈا قطر ہے اور دوسرا بحرین۔ اسی لیے بحرین کی حکومت عوامی شورش سے شدت سے نمٹنے کی کوشش کر رہی ہے۔ سعودی عرب نے بحرین میں اپنی افواج بھیج دی ہیں۔ اس لیے بہت مشکل اور پیچیدہ صورت حال پیدا ہو رہی ہے۔ خطہ میں قائم استبدادی نظام کا اہم نشان اردن ہے جسے حسین آف مکہ اور انگریزوں کے درمیان ہوئے بدنام زمانہ سائلس پیکو معاہدہ کے نتیجہ میں زبردستی مغربی سامراج نے شام اور فلسطین کے بعض علاقوں کو کاٹ کر بنا دیا تھا اور اس کا حکمران شریف حسین کے ایک بیٹے کو بنا دیا تھا۔ اردن اسرائیل کا حلیف ہے۔ یہاں تک کہ سفارت کے ساتھ ہی جاسوسی میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعاون کرتا ہے۔ اسرائیل کے پانی کے بیش تر وسائل کا منبع بھی اردن ہی ہے۔ اس کی اکثریت بھی فلسطینی باشندوں پر مشتمل ہے۔ اردن کے حکمرانوں نے بظاہر بعض اصلاحات کی طرف قدم بڑھائے ہیں مگر یہاں عوامی انقلاب اور موجودہ نظام کو ہٹانا شاید ابھی ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل کا ڈائرکٹ پڑوسی ہونے کے ناطے وہاں کسی جمہوریت کا آ نا اور موجود حکومت کا جانا امریکہ اور اسرائیل کے مفاد میں نہ ہو گا۔ اس لیے یہ طاقتیں چاہیں گی کہ وہاں کچھ ظاہری اور سمی سی تبدیلیوں سے کام چلا لیا جائے جس سے ان کے اسٹریٹجک مفادات کا تحفظ بھی ہو جائے اور عوامی شورس بھی ختم ہو جائے۔
عالم عرب میں عوامی انقلاب کا ایک اور اہم ترین پڑاؤ شام ہے۔ شام میں بھی ایک ہی خاندان کی حکومت دہائیوں سے چلی آ رہی ہے جسے سابق فوجی صدر اور ظالم ڈکٹیٹر حافظ الاسد نے جمہوری حکومت کے خلاف بغاوت کر کے قائم کیا تھا۔ یہاں عوام سنی ہیں مگر ایک چھوٹی سی علوی نصیری شیعی اقلیت ان پر حکمران ہے۔ یہ غالی فرقہ خود شیعوں کے نزدیک اسلام (شیعیت) سے خارج ہے۔ جب روس سپر پاور ہوا کرتا تھا تو روایتی طور پر شام ، امریکہ کے مقابلہ روس کیساتھ رہا، اس بھی اس کی بظاہر امریکہ سے نہیں بنتی ہے۔ عراق کے صدام حسین سے اس کے تعلقات تھے۔ لبنان کے حزب اللہ ملائیشیا کا وہ حمایتی ہے اور بظاہر فلسطینی کاز کی حمایت اور اسرائیل سے دشمنی مول لیے ہوئے ہے۔ چنانچہ حماس کی قیادت کو وہ پناہ دیتا ہے۔ حماس کی اس وقت سب سے بڑی شخصیت خالد مشعل جلا وطنی میں دمشق میں ہی قیام پذیر ہیں۔ وہ اس وقت ایران کا سب سے قریبی حلیف ہے اور اس وجہ سے امریکہ اور اسرائیل دونوں کے عتاب کا شکار ہیں۔
دوسری طرف دین پسندوں(اسلام پسندوں) کو شام میں دہائیوں سے ہر قسم کے ظلم و تشدد ، ٹارچر، تعذیب قید و بند کا شکار ہونا پڑا ہے۔ شام کے حافظ الاسد نے اسلام پسندوں کے مضبوط گڈھ شہر حماۃ پر اپنی فوج سے حملہ کیا اور 10 ہزار اخوان سے وابستہ افراد کو بمباری سے شہید کر ڈالا تھا۔ حقوق انسانی کی پامالی میں شام کسی سے پیچھے نہیں ہے۔ ہزار ہا افراد آج بھی جیلوں میں قید ہیں۔ شام بھی اب عرب ملکوں میں سر فہرست ہے۔ جہاں نظام استخبارات (جاسوس ایجنسیاں) ہر روقت شہریوں کے پیچھے لگی رہتی ہیں اور پورے ملک کو کنٹرول کرتی ہے۔ شام میں بھی عوامی مظاہرے میں شروع ہو گئے ہیں مگر ابھی کوئی مضبوط شکل اختیار نہیں کی ہے۔ تا ہم یہ تو صاف ظاہر ہے کہ عوامی انقلاب کا طوفان تھمے گا نہیں اور شام بھی اس سے آگ سے علیحدہ نہیں رہ سکتا۔ اگر وہاں حکومت مخالف مظاہروں میں شدت آتی ہے تو یقینی طور پر مغرب عوامی شورش کی حمایت پر مجبور ہو گا اور اس کی کوشش ہو گی کہ موجودہ نظام کو ختم کر کے کسی نئے چہرہ کو لے آئے جو امریکہ اور اسرائیل کے مفادات کا بھی تحفظ کرے اور اسلام کو بھی دبانے اور کچلنے کا ہنر جانتا ہو۔ دراصل دیکھا جائے تو یہ بھی ایک المیہ ہے اور کڑوی حقیقت کہ عالم عرب خصوصاً اور مسلم دنیا عموماً اب تک جرنیلوں، سول آمروں اور بادشاہوں کی دنیا رہی ہے۔ اس دنیا میں گزشتہ پچاس سال سے ہر چیز ’’کنٹرولڈ‘‘ چلی آ رہی ہے۔ ان ملکوں میں انتخابات کنٹرولڈ ہوتے ہیں۔ ان کے نتائج کنٹرولڈ ہوتے ہیں، حکومتیں کنٹرولڈ ہیں، سیاسی جماعتیں کنٹرولڈ ہوتی ہیں۔ ذرائع ابلاغ کنٹرولڈ ہوتے ہیں ، عدالتیں کنٹرولڈ ہوتی ہیں اور یہاں تک کہ احتجاج اور بغاوتیں بھی کنٹرولڈ ہوتی ہیں۔ اس بار ایسا نہیں ہو گا کہ اس میں کافی شبہ کیا جا سکتا ہے۔

Leave a comment