Published On: Thu, Aug 18th, 2011

غربت سے لڑنےوالا اداکار،جیکی چن، گمنامی سےشہرت تک

Share This
Tags

والدین اتنے غریب تھے کہ خوشیاں منانے کی بجائے برطانوی نڑاد ڈاکٹر سے گذارش کی کہ وہ خود یا تو بچے کو گود لے لیں یا پھر یتیم خانے میں بھیجنے کا انتظام کردیں

شوبز ڈیسک
جیکی چیان کو یہ اعزاز اور احترام اتنی آسانی سے نہیں ملا، اِس عزت اور شہرت کے پیچھے مجبوری اور محرومیوں کی ایک طویل داستان چھپی ہوئی ہے ۔ جیکی نے اپنی سوانح ’’آئی ایم جیکی چن، مائی لائف اِن ایکشن‘‘ کے راوی تو وہ خود ہیں مگر لکھی کسی اور نے ہے۔ 7 اپریل 1954ء کو ہانگ کانگ میں ایک بچے کا جنم ہوا ۔والدین اتنے غریب تھے کہ خوشیاں منانے کی بجائے برطانوی نڑاد ڈاکٹر سے گذارش کی کہ وہ خود یا تو بچے کو گود لے لیں یا پھر یتیم خانے میں بھیجنے کا انتظام کردیں ۔
اسپتال نے بچے کیلئے جو دودھ کی بوتل دی تھی وہ گر کر ٹوٹ گئی ۔ عمارتوں میں معمولی مزدوری کرنے والے والدین کے پاس خرچ ادا کرنے کیلئے بھی پیسے نہیں تھے۔ جیکی تقریبا سال بھر ماں کے پیٹ میں رہا، آپریشن کرکے نکالا گیا تو وہ اچھا خاصا ساڑھے تین کلو کا تھا، اسکی ماں لی لی پیار سے جیکی کو پاؤ پاؤ (توپ کا گولہ) پکارتی ،اسپتال کے رجسٹر میں جیکی کا نام چانگ کانگ سانگ درج تھا جس کا مطلب ہانگ کانگ کا بیٹا ہے ۔ آج جیکی چیان کے نام پر کم از کم تیس ہزار ویب پیج اور تقریبا آٹھ مقبول کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ کئی زبانوں میں انکے تراجم بھی ہوچکے، مگر خود اسے پڑھ نہیں سکتا اور لکھنے کا انداز بہت ہی خراب ہے۔? جیکی اپنا آٹو گراف مختلف طریقوں سے دیتا ہے کہ پہچاننا دشوار ہوتا ہے کہ یہ واقعی جیکی چیان کے دستخط ہیں ۔
بچپن میں وہ اپنے پسندیدہ ہیرو ’’بروسلی‘‘ کی فلم دیکھنے کیلئے ماں سے پیسے کی ضد کر رہا تھا، پیسے نہیں ملے تو وہ الٹا کھڑا ہوگیا اور تب تک کھڑا رہا جب تک اسے پیسے نہیں دیدیئے ۔ جیکی چیان خود کہتا ہے: ’’اپنے کو ایذا پہنچانے سے بڑی سزا یہ ہے کہ اپنی تکلیفوں سے دوسروں کو اذیت پہنچائی جائے، اِس سے قدرت کا توازن بنا رہتا ہے۔ اسلئے اکثر میں بھوکا رہتا ہوں، جب لوگ یہ کہنے لگیں کہ اب کھالو ورنہ مرجاؤ گے، ویسے میں ایک وقت میں دو مرغ اور ایک درجن انڈے کھا کر دو لیٹر دودھ پی سکتا ہوں اور پانچ چھ گھنٹے کی کسرت سے اسے ہضم بھی کرسکتا ہوں ۔‘‘ ہانگ کانگ میں فرانسیسی سفیر کا آسٹریلیا تبادلہ ہوگیا اور وہ اپنے نوکروں کے ساتھ انکے بچے سانگ (جیکی) کو بھی ساتھ لے گیا ۔
پہلا عشق
سانگ کی پہلی محبوبہ اِس سے عمر میں پانچ سال بڑی تھی، وہ اسکول میں سینئر تھی ۔ یہ بھی عام رومانی کہانیوں کی طرح ہے، سانگ سائیکل پر گھر لوٹ رہا تھا کہ راستے میں کچھ لوگ ایک لڑکی کو چھیڑ رہے تھے اور اسکے ساتھ زور زبردستی بھی کر رہے تھے ۔ پھر سانگ نے سائیکل کو ہتھیار بنایا اور سب کو مار بھگایا، سائیکل ٹوٹ کر بکھر گئی اور سانگ کے پاؤں کی ایک ہڈی بھی ٹوٹ گئی ۔ اس لڑکی نے سانگ کو نئی سائیکل خرید کر دی اور پھر دونوں میں دوستی ہوگئی ۔ جیکی ہر وقت تنگ دست اور پریشان رہتا تھا اسکے پاس آمدنی کا کوئی ذریعہ بھی نہیں تھا ۔ اسی دوران اس نے اپنی محبوبہ کو ایک ریسٹورنٹ میں کھانے پر مدعو کیا، بِل دینے کا موقع آیا تو سانگ نے ویٹروں سے مار پیٹ کرتے ہوئے حوالات پہنچ گیا ۔یہ اسکی پہلی محبت کا آخری دن تھا ۔ ویسے بعد میں جیکی نے وہ ریسٹورینٹ ہی خریدلیا اور اسے اسی حالت میں رکھا جیسے وہ پہلے تھا۔ سال میں دو بار (سانگ اور اسکی محبوبہ کی سالگرہ کے دن) وہاں دعوت عام ہوتی ہے، جیکی نے اپنی بیٹی کا نام بھی اسی محبوبہ کے نام پر رکھا ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جیکی نے اپنے کسی انٹرویو، ڈائری اور کتاب میں اپنی محبوبہ کا اصلی نام نہیں بتایا، وہ پیار سے اسے شینڈی کہتا تھا ۔
آج جیکی کے پاس کم سے کم تین جہاز ہیں، مگر پہلی محبوبہ کی دی ہوئی سائیکل کو اپنے ہانگ کانگ کے اسٹوڈیو کے باہر کانچ کے فریم میں سجا رکھا ہے ۔ جیکی کی یہ محبوبہ 2003ء4 میں ایک کار حادثہ میں فوت ہوگئی ۔ موت کے وقت تک شینڈی کو معلوم نہ تھا کہ اس کے بچپن کا دوست اور محبوب سانگ (جیکی) دنیا کا ممتاز اداکار بن چکا ہے ۔ جیکی کو جذباتی صدمے کے علاوہ بے شمار جسمانی اذیت کا بھی سامنا کرنا پڑا ۔ ایکشن کے اس ممتاز اداکار کی ناک کی ہڈی تین بار ٹوٹ ہوچکی ہے، ایڑی دو بار چٹخ چکی ہے، دونوں ہاتھوں کی تمام انگلیاں ٹوٹتی رہتی ہیں اور ان پر پلاسٹر لپٹا رہتا ہے اور اسکے شانوں، جبڑں پر بھی بے شمار چوٹیں آئیں ہیں ۔ جیکی کہتا ہے ’’میری سب سے بڑی پرابلم یہ ہے کہ رونا نہیں آتا جبکہ میں رونا چاہتا ہوں۔ میری امیج ہی کچھ ایسی بن گئی ہے کہ اب میں اس پر بھروسہ کرنے لگا ہوں، اسلئے رونے سے ڈرتا ہوں ۔ مجھے یاد ہے کہ آخری بار اس دن رویا تھا جب مجھے اسکول سے نکال دیا گیا تھا، میرا خیال ہے کہ رونے سے دل کی سیاہی دھل جاتی ہے اور ہنسنے کا نیا موقع ملتا ہے، ہنسنا اور رونا ایک ہی سکّے کے دو رخ ہیں۔‘‘
1986ء کا ایک واقعہ
کوریا کی عدالت میں افیم اسمگلنگ کا مقدمہ زیرِ سماعت تھا، ملزمہ ادھیڑ عمر کی ایک خاتون تھی، ثبوت اتنے پختے تھے کہ سزائے موت یقینی تھی ۔ خاتون کے بیان کے مطابق اس کا نام لی لی چارلس تھا، وہ ہانگ کانگ کے ایک غریب خاندان سے تھی اور آسٹریلیا سے لیکر جاپان تک گھروں میں کام کرکے گزر بسر کرتی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اسکے بیٹے کے دشمنوں نے اس کو بدنام کرنے کیلئے اس معاملہ میں بلا وجہ پھنسایا ہے، وہ بے گناہ ہے ۔ عدالت نے بیٹے کا نام دریافت کیا تو خاتون نے اپنے بیٹے کا نام بتایا اسکے ساتھ ہی پوری عدالت میں یکدم سنّاٹا چھا گیا، وہ خاتون جیکی چیان کی ماں تھی ۔ جیکی کیوجہ سے اسکی سزا کم کردی گئی اور اچھی خاصی رقم کا جرمانہ عائد کردیا جسے بعد میں جیکی نے ادا کیا ۔ جیکی اس بات کو کبھی نہیں بھولتا کہ اسکی پیدائش اور پرورش کا ابتدائی خرچ ریڈ کراس نے اٹھایا تھا، اسلئے وہ اس ادارے کو پابندی سے عطیہ دیتا ہے ۔ وہ اکثر یتیم خانوں میں بھی جاتا رہتا ہے اور کسی نہ کسی طرح انکی مدد کرتا ہے۔ یہ ہے آج کا جیکی چن، جو پردے پر کچھ نظر آتا ہے اور جس نے اپنا بچپن نہایت ہی غربت اور کسم پرسی میں گزارا اور اپنی محنت سے ایک عظیم اداکار بن گیا ۔

 

™Ž‚„ ¢Ž œ’Ÿ ƒŽ’¤ ’¥ ž ¥ ¢ž˜—¥Ÿ ‹œŽ 퇤œ¤ ˆ í Ÿ Ÿ¤ ’¥ “¦Ž„ „œ
¢ž‹¤  „ ¥ ™Ž¤‚ „§¥ œ¦ Š¢“¤¡ Ÿ  ¥ œ¤ ‚‡£¥ ‚Ž– ¢¤  ‹ Œœ…Ž ’¥ Ž“ œ¤ œ¦ ¢¦ Š¢‹ ¤ „¢ ‚ˆ¥ œ¢ ¢‹ ž¥ ž¤¡ ¤ ƒ§Ž ¤„¤Ÿ Š ¥ Ÿ¤¡ ‚§¤‡ ¥ œ  „—Ÿ œŽ‹¤¡
“¢‚ Œ¥’œ
‡¤œ¤ ˆ¤  œ¢ ¤¦ ˜ ¢Ž ‰„ŽŸ „ ¤ ³’ ¤ ’¥  ¦¤¡ Ÿží ª’ ˜„ ¢Ž “¦Ž„ œ¥ ƒ¤ˆ§¥ Ÿ‡‚¢Ž¤ ¢Ž Ÿ‰Ž¢Ÿ¤¢¡ œ¤ ¤œ –¢¤ž ‹’„  ˆ§ƒ¤ ¦¢£¤ ¦¥ ó ‡¤œ¤  ¥ ƒ ¤ ’¢ ‰ þþ³£¤ ¤Ÿ ‡¤œ¤ ˆ í Ÿ£¤ ž£š ª  ¤œ“ ýý œ¥ Ž¢¤ „¢ ¢¦ Š¢‹ ¦¤¡ ŸŽ žœ§¤ œ’¤ ¢Ž  ¥ ¦¥ó 7 ƒŽ¤ž 1954£ œ¢ ¦  œ  Ÿ¤¡ ¤œ ‚ˆ¥ œ ‡ Ÿ ¦¢ 󢁞‹¤  „ ¥ ™Ž¤‚ „§¥ œ¦ Š¢“¤¡ Ÿ  ¥ œ¤ ‚‡£¥ ‚Ž– ¢¤  ‹ Œœ…Ž ’¥ Ž“ œ¤ œ¦ ¢¦ Š¢‹ ¤ „¢ ‚ˆ¥ œ¢ ¢‹ ž¥ ž¤¡ ¤ ƒ§Ž ¤„¤Ÿ Š ¥ Ÿ¤¡ ‚§¤‡ ¥ œ  „—Ÿ œŽ‹¤¡ ó
’ƒ„ž  ¥ ‚ˆ¥ œ¤ž£¥ ‡¢ ‹¢‹§ œ¤ ‚¢„ž ‹¤ „§¤ ¢¦ Ž œŽ …¢… £¤ ó ˜ŸŽ„¢¡ Ÿ¤¡ Ÿ˜Ÿ¢ž¤ Ÿ‹¢Ž¤ œŽ ¥ ¢ž¥ ¢ž‹¤  œ¥ ƒ’ ŠŽˆ ‹ œŽ ¥ œ¤ž£¥ ‚§¤ ƒ¤’¥  ¦¤¡ „§¥ó ‡¤œ¤ „›Ž¤‚ ’ž ‚§Ž Ÿ¡ œ¥ ƒ¤… Ÿ¤¡ Ž¦í ³ƒŽ¤“  œŽœ¥  œž ¤ „¢ ¢¦ ˆ§ Š” ’§¥ „¤  œž¢ œ „§í ’œ¤ Ÿ¡ ž¤ ž¤ ƒ¤Ž ’¥ ‡¤œ¤ œ¢ ƒ¢¿ ƒ¢¿ â„¢ƒ œ ¢ž¦á ƒœŽ„¤ 큒ƒ„ž œ¥ Ž‡’…Ž Ÿ¤¡ ‡¤œ¤ œ  Ÿ ˆ  œ  ’  ‹Ž‡ „§ ‡’ œ Ÿ–ž‚ ¦  œ  œ ‚¤… ¦¥ ó ³‡ ‡¤œ¤ ˆ¤  œ¥  Ÿ ƒŽ œŸ  œŸ „¤’ ¦Ž ¢¤‚ ƒ¤‡ ¢Ž „›Ž¤‚ ³…§ Ÿ›‚¢ž œ„‚¤¡ žœ§¤ ‡ˆœ¤ ¦¤¡ó œ£¤ ‚ ¢¡ Ÿ¤¡  œ¥ „Ž‡Ÿ ‚§¤ ¦¢ˆœ¥í ŸŽ Š¢‹ ’¥ ƒ§  ¦¤¡ ’œ„ ¢Ž žœ§ ¥ œ  ‹ ‚¦„ ¦¤ ŠŽ‚ ¦¥ó? ‡¤œ¤ ƒ  ³…¢ Žš ŸŠ„žš –Ž¤›¢¡ ’¥ ‹¤„ ¦¥ œ¦ ƒ¦ˆ   ‹“¢Ž ¦¢„ ¦¥ œ¦ ¤¦ ¢›˜¤ ‡¤œ¤ ˆ¤  œ¥ ‹’„Š– ¦¤¡ ó
‚ˆƒ  Ÿ¤¡ ¢¦ ƒ ¥ ƒ’ ‹¤‹¦ ¦¤Ž¢ þþ‚Ž¢’ž¤ýý œ¤ šžŸ ‹¤œ§ ¥ œ¤ž£¥ Ÿ¡ ’¥ ƒ¤’¥ œ¤ •‹ œŽ Ž¦ „§í ƒ¤’¥  ¦¤¡ Ÿž¥ „¢ ¢¦ ž… œ§ ¦¢¤ ¢Ž „‚ „œ œ§ Ž¦ ‡‚ „œ ’¥ ƒ¤’¥  ¦¤¡ ‹¤‹¤£¥ ó ‡¤œ¤ ˆ¤  Š¢‹ œ¦„ ¦¥é þþƒ ¥ œ¢ ¤ ƒ¦ ˆ ¥ ’¥ ‚¤ ’ ¤¦ ¦¥ œ¦ ƒ ¤ „œž¤š¢¡ ’¥ ‹¢’Ž¢¡ œ¢ ¤„ ƒ¦ ˆ£¤ ‡£¥í ª’ ’¥ ›‹Ž„ œ „¢  ‚  Ž¦„ ¦¥ó ’ž£¥ œ†Ž Ÿ¤¡ ‚§¢œ Ž¦„ ¦¢¡í ‡‚ ž¢ ¤¦ œ¦ ¥ ž¤¡ œ¦ ‚ œ§ž¢ ¢Ž ¦ ŸŽ‡¢¿ ¥í ¢¤’¥ Ÿ¤¡ ¤œ ¢›„ Ÿ¤¡ ‹¢ ŸŽ™ ¢Ž ¤œ ‹Ž‡   Œ¥ œ§ œŽ ‹¢ ž¤…Ž ‹¢‹§ ƒ¤ ’œ„ ¦¢¡ ¢Ž ƒ ˆ ˆ§ § …¥ œ¤ œ’Ž„ ’¥ ’¥ ¦•Ÿ ‚§¤ œŽ’œ„ ¦¢¡ óýý ¦  œ  Ÿ¤¡ šŽ ’¤’¤ ’š¤Ž œ ³’…Ž¤ž¤ „‚‹ž¦ ¦¢¤ ¢Ž ¢¦ ƒ ¥  ¢œŽ¢¡ œ¥ ’„§  œ¥ ‚ˆ¥ ’  ⇤œ¤á œ¢ ‚§¤ ’„§ ž¥ ¤ ó
ƒ¦ž ˜“›
’  œ¤ ƒ¦ž¤ Ÿ‰‚¢‚¦ ª’ ’¥ ˜ŸŽ Ÿ¤¡ ƒ ˆ ’ž ‚¤ „§¤í ¢¦ ’œ¢ž Ÿ¤¡ ’¤ £Ž „§¤ ó ¤¦ ‚§¤ ˜Ÿ Ž¢Ÿ ¤ œ¦ ¤¢¡ œ¤ –Ž‰ ¦¥í ’  ’£¤œž ƒŽ §Ž ž¢… Ž¦ „§ œ¦ Ž’„¥ Ÿ¤¡ œˆ§ ž¢ ¤œ žœ¤ œ¢ ˆ§¤ Ž¦¥ „§¥ ¢Ž ’œ¥ ’„§ ¢Ž ‚Ž‹’„¤ ‚§¤ œŽ Ž¦¥ „§¥ ó ƒ§Ž ’   ¥ ’£¤œž œ¢ ¦„§¤Ž ‚ ¤ ¢Ž ’‚ œ¢ ŸŽ ‚§¤í ’£¤œž …¢… œŽ ‚œ§Ž £¤ ¢Ž ’  œ¥ ƒ¢¿¡ œ¤ ¤œ ¦Œ¤ ‚§¤ …¢… £¤ ó ’ žœ¤  ¥ ’  œ¢  £¤ ’£¤œž ŠŽ¤‹ œŽ ‹¤ ¢Ž ƒ§Ž ‹¢ ¢¡ Ÿ¤¡ ‹¢’„¤ ¦¢£¤ ó ‡¤œ¤ ¦Ž ¢›„ „  ‹’„ ¢Ž ƒŽ¤“  Ž¦„ „§ ’œ¥ ƒ’ ³Ÿ‹ ¤ œ œ¢£¤ Ž¤˜¦ ‚§¤  ¦¤¡ „§ ó ’¤ ‹¢Ž  ’  ¥ ƒ ¤ Ÿ‰‚¢‚¦ œ¢ ¤œ Ž¤’…¢Ž … Ÿ¤¡ œ§ ¥ ƒŽ Ÿ‹˜¢ œ¤í ‚ªž ‹¤ ¥ œ Ÿ¢›˜ ³¤ „¢ ’   ¥ ¢¤…Ž¢¡ ’¥ ŸŽ ƒ¤… œŽ„¥ ¦¢£¥ ‰¢ž„ ƒ¦ ˆ ¤ ó¤¦ ’œ¤ ƒ¦ž¤ Ÿ‰‚„ œ ³ŠŽ¤ ‹  „§ ó ¢¤’¥ ‚˜‹ Ÿ¤¡ ‡¤œ¤  ¥ ¢¦ Ž¤’…¢Ž¥ … ¦¤ ŠŽ¤‹ž¤ ¢Ž ’¥ ’¤ ‰ž„ Ÿ¤¡ Žœ§ ‡¤’¥ ¢¦ ƒ¦ž¥ „§ó ’ž Ÿ¤¡ ‹¢ ‚Ž ⒁  ¢Ž ’œ¤ Ÿ‰‚¢‚¦ œ¤ ’žŽ¦ œ¥ ‹ á ¢¦¡ ‹˜¢„ ˜Ÿ ¦¢„¤ ¦¥í ‡¤œ¤  ¥ ƒ ¤ ‚¤…¤ œ  Ÿ ‚§¤ ’¤ Ÿ‰‚¢‚¦ œ¥  Ÿ ƒŽ Žœ§ ¦¥ó ‹žˆ’ƒ ‚„ ¤¦ ¦¥ œ¦ ‡¤œ¤  ¥ ƒ ¥ œ’¤  …Ž¢¤¢í Œ£Ž¤ ¢Ž œ„‚ Ÿ¤¡ ƒ ¤ Ÿ‰‚¢‚¦ œ ”ž¤  Ÿ  ¦¤¡ ‚„¤í ¢¦ ƒ¤Ž ’¥ ’¥ “¤ Œ¤ œ¦„ „§ ó
³‡ ‡¤œ¤ œ¥ ƒ’ œŸ ’¥ œŸ „¤  ‡¦ ¦¤¡í ŸŽ ƒ¦ž¤ Ÿ‰‚¢‚¦ œ¤ ‹¤ ¦¢£¤ ’£¤œž œ¢ ƒ ¥ ¦  œ  œ¥ ’…¢Œ¤¢ œ¥ ‚¦Ž œ ˆ œ¥ šŽ¤Ÿ Ÿ¤¡ ’‡ Žœ§ ¦¥ ó ‡¤œ¤ œ¤ ¤¦ Ÿ‰‚¢‚¦ 2003£  Ÿ¤¡ ¤œ œŽ ‰‹†¦ Ÿ¤¡ š¢„ ¦¢£¤ ó Ÿ¢„ œ¥ ¢›„ „œ “¤ Œ¤ œ¢ Ÿ˜ž¢Ÿ  ¦ „§ œ¦ ’ œ¥ ‚ˆƒ  œ ‹¢’„ ¢Ž Ÿ‰‚¢‚ ’  ⇤œ¤á ‹ ¤ œ ŸŸ„ ‹œŽ ‚  ˆœ ¦¥ ó ‡¤œ¤ œ¢ ‡‚„¤ ”‹Ÿ¥ œ¥ ˜ž¢¦ ‚¥ “ŸŽ ‡’Ÿ ¤ ¤„ œ ‚§¤ ’Ÿ  œŽ  ƒ ó ¤œ“  œ¥ ’ ŸŸ„ ‹œŽ œ¤  œ œ¤ ¦Œ¤ „¤  ‚Ž …¢… ¦¢ˆœ¤ ¦¥í ¤¤ ‹¢ ‚Ž ˆ…Š ˆœ¤ ¦¥í ‹¢ ¢¡ ¦„§¢¡ œ¤ „ŸŸ  ž¤¡ …¢…„¤ Ž¦„¤ ¦¤¡ ¢Ž   ƒŽ ƒž’…Ž žƒ… Ž¦„ ¦¥ ¢Ž ’œ¥ “ ¢¡í ‡‚¡ ƒŽ ‚§¤ ‚¥ “ŸŽ ˆ¢…¤¡ ³£¤¡ ¦¤¡ ó ‡¤œ¤ œ¦„ ¦¥ þþŸ¤Ž¤ ’‚ ’¥ ‚¤ ƒŽ‚žŸ ¤¦ ¦¥ œ¦ Ž¢   ¦¤¡ ³„ ‡‚œ¦ Ÿ¤¡ Ž¢  ˆ¦„ ¦¢¡ó Ÿ¤Ž¤ Ÿ¤‡ ¦¤ œˆ§ ¤’¤ ‚  £¤ ¦¥ œ¦ ‚ Ÿ¤¡ ’ ƒŽ ‚§Ž¢’¦ œŽ ¥ ž ¦¢¡í ’ž£¥ Ž¢ ¥ ’¥ ŒŽ„ ¦¢¡ ó Ÿ‡§¥ ¤‹ ¦¥ œ¦ ³ŠŽ¤ ‚Ž ’ ‹  Ž¢¤ „§ ‡‚ Ÿ‡§¥ ’œ¢ž ’¥  œž ‹¤ ¤ „§í Ÿ¤Ž Š¤ž ¦¥ œ¦ Ž¢ ¥ ’¥ ‹ž œ¤ ’¤¦¤ ‹§ž ‡„¤ ¦¥ ¢Ž ¦ ’ ¥ œ  ¤ Ÿ¢›˜ Ÿž„ ¦¥í ¦ ’  ¢Ž Ž¢  ¤œ ¦¤ ’œ­¥ œ¥ ‹¢ ŽŠ ¦¤¡óýý
1986£ œ ¤œ ¢›˜¦
œ¢Ž¤ œ¤ ˜‹ž„ Ÿ¤¡ š¤Ÿ ’Ÿž  œ Ÿ›‹Ÿ¦ ¤Žª ’Ÿ˜„ „§í ŸžŸ¦ ‹§¤ ˜ŸŽ œ¤ ¤œ Š„¢  „§¤í †‚¢„ „ ¥ ƒŠ„¥ „§¥ œ¦ ’£¥ Ÿ¢„ ¤›¤ ¤ „§¤ ó Š„¢  œ¥ ‚¤  œ¥ Ÿ–‚› ’ œ  Ÿ ž¤ ž¤ ˆŽž’ „§í ¢¦ ¦  œ  œ¥ ¤œ ™Ž¤‚ Š ‹  ’¥ „§¤ ¢Ž ³’…Ž¤ž¤ ’¥ ž¤œŽ ‡ƒ  „œ §Ž¢¡ Ÿ¤¡ œŸ œŽœ¥ Ž ‚’Ž œŽ„¤ „§¤ó ’ œ œ¦  „§ œ¦ ’œ¥ ‚¤…¥ œ¥ ‹“Ÿ ¢¡  ¥ ’ œ¢ ‚‹ Ÿ œŽ ¥ œ¤ž£¥ ’ Ÿ˜Ÿž¦ Ÿ¤¡ ‚ž ¢‡¦ ƒ§ ’¤ ¦¥í ¢¦ ‚¥  ¦ ¦¥ ó ˜‹ž„  ¥ ‚¤…¥ œ  Ÿ ‹Ž¤š„ œ¤ „¢ Š„¢   ¥ ƒ ¥ ‚¤…¥ œ  Ÿ ‚„¤ ’œ¥ ’„§ ¦¤ ƒ¢Ž¤ ˜‹ž„ Ÿ¤¡ ¤œ‹Ÿ ’ ­… ˆ§ ¤í ¢¦ Š„¢  ‡¤œ¤ ˆ¤  œ¤ Ÿ¡ „§¤ ó ‡¤œ¤ œ¤¢‡¦ ’¥ ’œ¤ ’ œŸ œŽ‹¤ £¤ ¢Ž ˆ§¤ Š”¤ Ž›Ÿ œ ‡ŽŸ ¦ ˜£‹ œŽ‹¤ ‡’¥ ‚˜‹ Ÿ¤¡ ‡¤œ¤  ¥ ‹ œ¤ ó ‡¤œ¤ ’ ‚„ œ¢ œ‚§¤  ¦¤¡ ‚§¢ž„ œ¦ ’œ¤ ƒ¤‹£“ ¢Ž ƒŽ¢Ž“ œ ‚„‹£¤ ŠŽˆ Ž¤Œ œŽ’  ¥ …§¤ „§í ’ž£¥ ¢¦ ’ ‹Ž¥ œ¢ ƒ‚ ‹¤ ’¥ ˜–¤¦ ‹¤„ ¦¥ ó ¢¦ œ†Ž ¤„¤Ÿ Š ¢¡ Ÿ¤¡ ‚§¤ ‡„ Ž¦„ ¦¥ ¢Ž œ’¤  ¦ œ’¤ –Ž‰  œ¤ Ÿ‹‹ œŽ„ ¦¥ó ¤¦ ¦¥ ³‡ œ ‡¤œ¤ ˆ í ‡¢ ƒŽ‹¥ ƒŽ œˆ§  —Ž ³„ ¦¥ ¢Ž ‡’  ¥ ƒ  ‚ˆƒ   ¦¤„ ¦¤ ™Ž‚„ ¢Ž œ’Ÿ ƒŽ’¤ Ÿ¤¡ Ž ¢Ž ƒ ¤ Ÿ‰ „ ’¥ ¥œ ˜—¥Ÿ ‹œŽ ‚  ¥ ó
Displaying 1 Comments
Have Your Say
  1. hmy aysy logo ko mashl e raah bnaa chaheye

Leave a comment