Published On: Sun, May 22nd, 2011

اسامہ زندہ گرفتار ہو جاتا تو۔۔۔۔۔۔۔۔

اسامہ پر مقدمہ چلانا ان کے مداحوں میں اضافے کی وجہ بنتا؟
انصاف کے حصول  کے لیے امن خطرے میں

 

 

امریکی فوج کے خصوصی دستے نے اسامہ بن لادن کو گرفتار کرنے کے بجائے انہیں سر میں گولی مار کر ہلاک کر دیا اور یوں امریکہ کو سب سے زیادہ مطلوب شخص کو کسی مقدمے کا سامنا کرنا نہیں پڑا لیکن سوال یہ ہے کہ کیا اسے زندہ گرفتار کیا جانا چاہیے تھا۔ اب قانون دان ہمیشہ یہ سوال اٹھاتے رہیں گے کہ اسامہ کی زندہ گرفتاری بہتر آپشن تھی جیسا کہ ولسٹن چرچل نے کہا تھاکہ قانون جنگ سے بہتر ہے لیکن اس کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔ لیکن یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر بن لادن کو گرفتار کر لیا جاتا تو انہیں مقدممہ چلائے جانے تک ایسی کون سی جگہ رکھا جاتا جو محفوظ ہوتی۔ اگر صدام حسین کے مقدمے کو ذہن میں رکھا جائے تو اسامہ کے خلاف مقدمے کا صحیح مقام نیویارک شہر ہوتا لیکن سکیورٹی وجوہات کی بنا پر انہیں شاید ایسا ممکن نہ ہوتا۔ اس کی مثال نائن الیون حملوں کے منصوبہ ساز خالد شیخ محمد کے خلاف مقدمے کا مین بٹن کے بجائے گو انتا ناموبے میں فوجی عدالت کے سامنے چلایا جانا ہے۔ ایک سوال یہ ہے کہ کیا اسامہ بن لادن پرمقدمہ چلانا ان کے مداحوں میں اضافے کی وجہ بنتا؟ سی عالمی فورم پر بن لادن کے خلاف مقدمہ چلایا جانا اس سوال کو بھی جنم دیتا ہے کہ کیا انصاف کے حصول کے لیے امن کو خطرے میں تو نہیں ڈالا جا رہا۔ پاکستان اور افغانستان میں عدم استحکام اور عرب ممالک میں مظاہروں کے بعد مشرقی وسطیٰ کا غیر یقینی مستقبل بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتا۔ اگرچہ ایسے ٹربیونلز کافی عرصے سے کسی جنگ یا لڑائی کے حوالے سے مقدمات کی سماعت کرتے رہے ہیں لیکن ان کی کارکردگی پر بھی سوالات اٹھائے جا تے رہے ہیں اور جو یہ کہتے ہیں کہ ان ٹربیونلز میں سماعت سے مقدمات کا فیصلہ جلد ہو جاتا ہے انہیں یہ بات جان لینی چاہیے کہ گوانتا نامو کمیشنز کو تشکیل پائے تقریباً نو سال ہو چکے ہیں اور اس دوران صرف پانچ مقدمات کا ہی فیصلہ سنایا جا سکا ہے اور ان میں بھی سے تین میں مجرم نے حکام کے ساتھ تعاون کا فیصلہ کیا تھا۔ چنانچہ یہ ممکن نہیں کہ گوانا نامو میں اسامہ بن لادن کے خلاف مقدمہ امریکیوں کووہ اطمینان بخشتا جو اس کی ہلاکت سے ملا ہے۔
یہ بھی ایک سوال ہے کہ کیا اسامہ کو کسی بین الاقوامی فورم پر پیش نہیں کیا جا سکتا تھا؟ یہ سبھی مانتے ہیں کہ القاعدہ کی کارروائیوں کو اکثر صرف امریکہ کے بجائے دنیا بھر کے ممالک کے لیے خطرات کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے لیکن اسامہ بن لادن کو نائن الیون حملوں کے لئے انٹرنیشنل کرمنل کورٹ میں پیش نہیں کیا جا سکتا تھا کیونکہ اس عدالت کی حدود کا اطلاق 2002 ء سے ہوتا ہے۔ کیا اسامہ بن لادن پر مقدمہ چلنا ان کے مداحوں میں اضافے کی وجہ بنتا؟ اقوام متحدہ کی سلامتی ایک عبوری ٹربیونل بنا سکتی تھی جیسا کہ اس نے راونڈا اور سابق یوگو سلاویہ کے حوالے سے کیا تھا۔ لیکن ان معاملات میں عالمی برادری ان افراد کوایک پیغام دینا چاہتی تھی جنہوں نے نسل کشی اور انسانیت کے خلاف جرائم کیے۔ دہشتگردی کے معاملے میں کسی ٹربیونل کی تشکیل کی واحد مثال، لبنان، میں بنایا گیا خصوصی ٹربیونل ہے اور یہ کوئی اچھی مثال نہیں۔ سابق لبنانی وزیراعظم رفیق حریری کے قتل کی تحقیات کے لیے یہ ٹربیونل 2007 ء میں بنایا گیا تھا اور ابھی اس میں مقدمہ نہیں چلایا گیا ۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مشرقی وسطی کی حساس سیاسی صورتحال کی وجہ سے شاید اس میں کبھی بھی مقدمہ نہ چل سکے۔ کسی عالمی فورم پر بن لادن کے خلاف مقدمہ چلایا جانا اس سوال کو بھی جنم دیتا کہ کیا انصاف کے حصول کے لیے امن کو خطرے میں تو نہیں ڈالا جا رہا۔ پاکستان اورافغانستان میں عدم استحکام اور عرب ممالک میں مظاہروں کے بعد مشرقی وسطیٰ کا غیر یقینی مستقبل بھی اس معاملے میں اہم کردار ادا کرتا لیکن اگر یہ تصور بھی کر لیا جائے کہ ان مشکلات پرقابو پا لیا جاتا اور اسامہ بن لادن پر سلوبوڈانملازووچ یا لائبیریا کے صدر چارلس ٹیلر کی طرح مقدمہ چلتا تو کیا انصاف کے تقاضے پورے ہوئے؟ یہ ضروری نہیں۔ استغاثہ کو ثابت کرنا پڑتا کہ بن لادن ورلڈ ٹریڈ سنٹر حملوں کے ذمہ دار ہیں اوریہ کہ انہوں نے امریکہ میں ہزاروں افراد کو ہلاک کرنے کی سازش رچائی تھی۔ ملاز ووچ کے مقدمے میں بھی نیت کو ثابت کرنا ایک مشکل کام تھا جو کہ ان کی مقدمے کے دوران ہلاکت کی وجہ سے مکمل نہیں کرنا پڑا جب کہ چارلس ٹیلر کے مقدمے میں بھی تانے بانے جوڑنا ایک مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ ولسٹن چرچل نے کبھی اس بات پر افسوس ظاہر نہیں کیا کہ انہوں نے نازی رہنماؤں کے خلاف کارروائی کے اپنے فیصلے کو مشورے کے بعد تبدیل کر دیا گیا تھا لیکن اگرباراک اوباما نے اسامہ بن لادن کو ہلاک کرنے کا حکم دیا تھا تو وہ اس کے دفاع میں ٹھوس دلائل بھی دے سکتے تھے۔

Leave a comment