Published On: Sun, Sep 14th, 2014

بھارتی خفیہ ایجنسی جیو ٹی وی کو نقصان سے بچانے کیلئے آ گئی، ’’ تھرڈپارٹی ‘‘ کے ذریعے ’’ جیو ‘‘ خریدنے کی تیاریاں ، تین سال کے اخراجات بھی برداشت کرنے کی یقین دہانی، میر شکیل ڈیل کیلئے پاکستان آ گئے،اہم انکشافات

Share This
Tags

جیو کی خرید کے لئے مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت’’ را ‘‘کے فرنٹ مین کی حیثیت سے جیو نیٹ ورک خریدنے کے لئے تیار ، میرشکیل اور میر ابراہیم الرحمان کی دوبئی اور دہلی میں بھارتی خفیہ ایجنسی کے افسران سے ملاقاتیں، ’’ را ‘‘ کے سابق سربراہ سنجیو تری پاٹھی سارے منصوبے کے خالق ہیں، اہم انکشافات

بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را ‘‘ اپنے فرنٹ مین کے ذریعے پاکستان کے سے بڑے میڈیا گروپ کے نیو ز چینل ’’ جیو ٹی وی نیٹ ورک ‘‘کو خرید رہی ہے۔ یہ ایک تہلکہ انگیز انکشاف ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتالیکن اس سے پہلے اس تحقیقاتی سٹوری کی تمحید کے بارے میں کچھ جان لیں ۔
geo’’ جیو ٹی وی نیٹ ورک ‘‘ اور اس کے سربراہ میر شکیل الر حمان اِس وقت نہ صرف پاکستان بلکہ بیرون ملک بھی مشکلات کا شکار ہیں تو اس کی وجوہات بھی ان کی اپنی پیدا کردہ ہیں ۔ایک دور تھا کہ جنگ اور جیو نیٹ ورک کا بڑا نام تھا ، خبریں ، تجزےئے اور تبصروں میں واقعی اس کا کوئی ثانی نہیں تھالیکن پھر نہ جانے کیا ہوا ۔ انتظامی طور پر کیا تبدیلیاں آئیں ؟کہ پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ زوال کی طرف بڑھنے لگا ۔یک طرفہ رپورٹنگ اور منظور نظر سیاست دانوں کے خیالات اور نظریات کی ترویج نے جنگ/جیو گروپ کی ساکھ کو متاثر کیا اور پھر اوپر سے رہی سہی کسر پاک فوج کے خلاف بے بنیاد پروپیگنڈے اور ’’امن کی آشا ‘‘جیسے پروگرامز کے نام پرڈالرز کی چمک دمک نے پوری کر دی ۔2013ء کے انتخابات میں سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور حکمران جماعت مسلم لیگ نواز کے ساتھ مل کر دھاندلی جیسے الزامات کے باوجود جنگ /جیو کی روش نہیں بدلی ۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اس طرح کے الزامات کے بعد جنگ/جیو اپنی روش بدلتا اور نیوٹرل رہ کر ان الزامات کو بے بنیاد ثابت کرتا لیکن پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ہونے کے دعویدار نے نہ صرف صحافتی اصولوں کی دھجیاں اُڑا دیں بلکہ اُ س پر بلیک میلنگ جیسے الزامات بھی لگنے لگے۔ان الزامات کے بعد جنگ /جیو کے بزنس پر بھی اثر پڑااور قارئین کی بڑی تعداد نے جنگ گروپ کے اخبارات اور ٹی وی چینلز سے ’’ ویوورشپ‘‘ کا رشتہ توڑ دیا ۔جنگ /جیو پر ملک دشمنی کے الزامات کے بعد گر وپ جہاں ایک طرف مالی مشکلات کا شکار ہو چکا ہے وہاں ان الزامات کے بعد اس میڈیا گروپ سے وابستہ سینکڑوں صحافیوں اور ہزاروں ورکرز کے روزگار پر بھی سوالیہ نشان لگ گیا ہے ۔یہ سب ایک دن میں نہیں ہو گیا بلکہ جنگ/جیو کو اس حال تک پہنچنے میں کئی سال لگے ۔
اس سلسلے میں ایک تازہ ترین انکشاف یہ ہے کہ بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را ‘‘ اپنے فرنٹ مین کے ذریعے’’ جیو ٹی وی نیٹ ورک ‘‘کو خرید رہی ہے۔ اس سلسلے میں ’’ڈیلی میل نیوز‘‘ نے اپنی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں بہت سے حقائق سے پردہ اٹھایا ہے۔یہ رپورٹ پڑھیں اور جانیں کہ پاکستان میں پس پردہ کیا کچھ ہورہا ہے جس کی کچھ خبر بھی عوام کو نہیں ہے ۔
مقبول ارشد   ایڈیٹر فیکٹ

 پاکستان کا سب سے بڑا میڈیا گروپ ’’ جیو ‘‘ ٹی وی نیٹ ورک بے پناہ مالی مشکلات سے دوچار ہونے کے باعث بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را ‘‘ اپنے فرنٹ مین کے ذریعے’’ جیو ٹی وی نیٹ ورک ‘‘کو خرید رہی ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں جا رہا ہے ؟ کہا جا رہا ہے کہ اس سودے کا مقصد بھارتی انٹیلی جینس ایجنسی ‘‘را’’ اور جیو ٹی وی کے درمیان خفیہ تعلقات کا راز ماضی قریب میں افشا ہونے کی وجہ سے جیو نیٹ ورک کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ کرنا ہے۔ یہ سودا ’’تھرڈ پارٹی‘‘ کے ذریعہ انجام پائے گا۔
کہانی کاآغاز کہاں سے ہوا؟
اس کہانی کا آغاز ستمبر/اکتوبر2013ء سے شروع ہوتا ہے جب مؤقر ہندوستانی اخبار ’’ہندوستان ٹائمز‘‘نے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’’را‘‘اور جیو ٹی وی کے درمیان قریبی تعلقات و روابط کا بھانڈا پھوڑا۔ یہ سلسلہ بڑھتے بڑھتے یہاں تک پہنچا کہ اپریل 2013ء میں جیو ٹی وی سے وابستہ ’’بلوچ علیحدگی پسندوں‘‘کے سب سے بڑے حامی حامد میر پر کراچی میں قاتلانہ حملہ ہوا۔ان واقعات سے بھارتی خفیہ ادارے ’’را‘‘کے بڑوں کو بخوبی اندازہ ہو گیا کہ جیو نیٹ ورک کے ساتھ ان کے قریبی تعلقات و تعاون کا راز اب فاش ہو چکا ہے۔ ایک اعلی سطحی اجلاس، جس میں را کے سابق سربراہ سنجیو تری پاٹھی نے بھی شرکت کی، میں یہ فیصلہ ہوا کہ جیو نیٹ ورک کو اپنا بھرم قائم رکھنے کیلئے ایک موقعہ دیا جائے تاکہ جیو نیٹ ورک یہ ثابت کر سکے کہ بھارتی خفیہ ادارے’’ را ‘‘کے ساتھ اس کے مزید کوئی تعلقات نہیں ہیں۔
اندرونی ذرائع نے بتایا کہ میٹنگ میں فیصلہ کیا گیا کہ سنجیو تری پاٹھی کو، جو اب ہندو انتہا پسند تنظیم ‘‘بھارتیہ جنتہ پارٹی’’ کے ممبر ہیں، اس صورتحال کو قابو میں کرنے اور اس سے نمٹنے کے لئے ایک جامعہ پروپوزل تیار کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ سنجیو تری پاٹھی نے سب سے پہلے تو اپریل میں حامد میر پر ہونے والے حملے کے بعد’’ را‘‘کی جانب سے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر السلام کو ہدف بنانے کی حکمت عملی پر نا پسندیدگی کا اظہار کیا۔ واضح رہے کہ را کے کہنے پر جیو نیٹ ورک نے مسلسل کی گھنٹوں اور دنوں تک آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل ظہیر السلام کے خلاف براہ راست مہم چلائی تھی اور ان کو ذاتی طور پر حامد میر پر ہونے والے حملے کا ذمہ دار قرار دیا تھا۔کئی گھنٹوں تک جنرل ظہیر السلام کی تصویر کسی دہشت گرد کی طرح جیو ٹی وی پر دکھائی جاتی رہی اور ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے جنرل ظہیر السلام پاکستانی خفیہ ایجنسی کے سربراہ نہیں بلکہ کسی دہشتگرد تنظیم کے سربراہ ہوں اور کوئی نائن الیون جیسے واقعہ کے ذمہ دار ہوں۔میر شکیل الرحمن اور جیو ٹی وی جنرل ظہیر السلام کو بدنام کرنے کیلئے یہ مہم براہ راست’’را‘‘کے اشاروں پر چلا رہے تھے۔ سنجیو تری پاٹھی کہ کہنا تھا کہ جس انداز میں’’ را ‘‘کی جانب سے یہ مہم چلائی گئی وہ بے ڈھنگا تھا اور اس سے کئی بہتر پیشہ ورانہ اور محفوظ طریقے سے یہی کام کیا جا سکتا تھا۔ را کے سربراہ نے اس مہم کو بد ترین غلطی قرار دیا۔
  را کے سابق سربراہ سنجیو تری پاٹھی کا کردار
سنجیو تری پاٹھی کو اس منصوبے کا خالق کہا جائے تو بیجا نہ ہو گا ۔ سنجیو تری پاٹھی کافی عرصہ سے اسی تگ و دو میں لگے ہوئے تھے کہ بھارتی خفیہ ادارے’’را‘‘ کے بھارتی میڈیا کے ساتھ تعلقات کی بہتری اور فنڈنگ کے ساتھ ساتھ کسی طرح پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرونک میڈیا تک بھی رسائی حاصل کر سکیں اور پاکستانی صحافیوں کے ساتھ بھی روابط استوار کر لیں اور یہ موقعہ ملا ان کو’’امن کی آشا‘‘نامی پروجیکٹ سے۔ سنجیو تری پاٹھی ’’امن کی آشا‘‘ اور اس جیسے کئی اور پروجیکٹس کے بانی و معمار تصور کئے جاتے ہیں۔ امن کی آشا کیلئے ان کی جد و جہد کا آغاز ان کے را کے سربراہ بننے سے پہلے ہی ہو چکا تھا۔

وہ ذرائع، جو اس حوالے سے اندرونی معلومات رکھتے ہیں،بتاتے ہیں کہ تری پاٹھی نے’’ را ‘‘اور’’ جیو ‘‘کی اس مشکل صورتحال سے جان بخشی کے لئے کوشش کرنے پر آمادگی ظاہر کرنے کے بعد متحدہ عرب امارات کے کئی چکر لگائے اور وہاں ان کی جنگ اور جیو گروپ کے خود ساختہ جلا وطن سربراہ میر شکیل الرحمان سے ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں جن میں حامد میر کے قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال پر تفصیلی غور و خوض ہوا۔ ان ملاقاتوں میں سنجیو تری پاٹھی نے میر شکیل الرحمان کو مشورہ دیا کہ وہ ان تجاویز پر غور کریں جو وہ نئی دہلی سے اپنے ساتھ لائے ہیں۔
وہ تجاویز جو تری پاٹھی نے جنگ اور جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کو دیں ان میں سرفہرست تو یہ تھی کہ جیو گروپ پاکستانی مسلح افواج اور آئی ایس آئی کے خلاف یہ مہم چلائے کہ ان اداروں کے غیض و غضب کی وجہ سے جیو گروپ کو شدید مالی نقصان و خسارہ اٹھانا پر رہا ہے (اس حوالے سے جنگ گروپ کے اشتہارات تو آپ سب کی نظروں سے گزرے ہوں گے) اور پھر اسی کو بنیاد بنا کر احتجاجی مظاہرہ اور ریلیاں نکالی جائیں (یہ سب کچھ بھی ہو رہا ہے اور حامد میر کا ٹوئٹ پیغام اس حوالے سے قابل ذکر ہے جس میں انہوں نے آئی ایس آئی کے دفاتر کے باہر دھرنا دینے کی بات کی ہے) اور پھر اس مہم کے اختتام پر جیو گروپ اس بات کا اعلان کرے کہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہا سوائے اس کہ کے وہ اپنے گروپ کو بند کر کے اس کے حصص کسی اور کو بیچ دے۔ یہ بات بھی جنگ گروپ کے اشتہارات اور مہم میں اشاروں کی زبان میں کہی جاتی رہی ہے۔

را کے سابق سربراہ نے میر شکیل الرحمان کو تجویز دی کہ کہ جیو گروپ پاکستانی مسلح افواج اور آئی ایس آئی کے خلاف یہ مہم چلائے کہ ان اداروں کے غیض و غضب کی وجہ سے جیو گروپ کو شدید مالی نقصان و خسارہ اٹھانا پر رہا ہے پھر اسی کو بنیاد بنا کر احتجاجی مظاہرہ اور ریلیاں نکالی جائیں۔ مہم کے اختتام پر جیو گروپ اس بات کا اعلان کرے کہ اس کے پاس اور کوئی چارہ نہیں رہا ،سوائے اس کہ کے وہ اپنے گروپ کو بند کر کے اس کے حصص کسی اور کو بیچ دے۔

تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ سنجیو تری پاٹھی نے جیو کی خرید کے لئے مشرق وسطیٰ سے تعلق رکھنے والی ایک کاروباری شخصیت کو آمادہ کر لیا ہے جن کا متحدہ عرب امارات، بھارت اور ساؤتھ افریقہ میں بہت بڑا کاروباری نیٹ ورک پہلے ہی سے موجود ہے۔ یہ کاروباری شخصیت’’ را ‘‘کے فرنٹ مین کی حیثیت سے جیو نیٹ ورک خریدنے کے لئے تیار ہے۔ سنجیو تری پاٹھی نے اس کاروباری شخصیت کو یہ یقین دہانی بھی کروائی ہے کہ جیو کو خریدنے کے لئے ساری فنڈنگ بھارتی خفیہ ا یجنسی را فراہم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ چینل چلانے کیلئے تین سال کے آپریشنل اخراجات بھی بھارتی انٹیلی جینس ایجنسی ’’را‘‘کی طرف سے ادا کئے جائیں گے جبکہ اس کاروباری شخصیت کو صرف اس نیٹ ورک کے باس کی حیثیت سے خدمات انجام دینی ہوں گی۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ اس خفیہ سودے میں مشرق وسطیٰ کی اس نمایاں شخصیت کو درمیان میں ڈال کر اس تاثر کی نفی دینے کی کوشش کی گئی کہ جیو اور ’’را ‘‘کا کسی بھی قسم کا رابطہ یا ساتھ باقی ہے۔ اس طرح خریدے گئے نیٹ ورک کی ساکھ قائم کرنے میں مدد ملتی۔ذرائع نے مزید انکشاف کیا کہ سودے کی بنیادی باتیں طے ہونے کے بعد میر شکیل الرحمان کے بیٹے میر ابراہیم نے اپنے جیو گروپ کے تین ممبران کے ساتھ اوائل اگست میں ممبئی کا دورہ کیا۔ اس دورے میں متحدہ عرب امارات کے نام نہاد خریدار گروپ کے ارکان بھی ان کے ساتھ شامل تھے۔
تفصیلی تحقیقات سے یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ممبئی میں’’ را‘‘ کے ساتھ ان دورہ کرنے والے ارکان کے مذاکرات کے کم از کم تین دور ہوئے جس میں بھارتی میڈیا نیٹ ورکس ’’سونی ‘‘اور ’’زی ٹی وی‘‘ کے بھی کچھ نمائندہ شامل تھے۔ملاقاتوں کے یہ ادوار’’ را‘‘ کے ہیڈ کوارٹرز میں انجام پائے جس میں سنجیو تری پاٹھی اور دیگر افراد کے ساتھ ساتھ’’ را ‘‘کے جائنٹ سیکرٹری برائے پاکستان (ایریا ون)، جائنٹ سکریٹری برائے مشرق وسطیٰ اور افریقہ (ایریا 3) اور جائنٹ سیکرٹری برائے الیکٹرونکس و ٹیکنیکل سیکشن بھی شامل تھے۔

تری پاٹھی نے اس کاروباری شخصیت کو یہ یقین دہانی بھی کروائی کہ جیو کو خریدنے کے لئے ساری فنڈنگ بھارتی خفیہ ا یجنسی را فراہم کرے اور اس کے ساتھ ساتھ چینل چلانے کیلئے تین سال کے آپریشنل اخراجات بھی بھارتی انٹیلی جینس ایجنسی ’’را‘‘کی طرف سے ادا کئے جائیں گے

…..  امن کی آشا ختم
اس میٹنگ میں یہ بھی طے پایا کہ ’’امن کی آشا‘‘نامی مہم کو خاموشی اور مہارت کے ساتھ ختم کر دیا جائے کیوں کہ موجودہ حالات میں یہ مہم اپنی سارا بھروسہ و اعتماد کھو چکی ہے، خاص طور پر سنجیو تری پاٹھی کے را کی سربراہی سے ہٹنے کے بعد جس طرح حامد میر والے معاملے کو ہینڈل کیا گیا، اس نے اس پوری مہم کو ہی مشکوک بنا ڈالا۔ان ملاقاتوں کے درمیان ابتدائی پلان میں ترمیم و تنسیخ کی گئی، جبکہ اگلی ملاقات کی تاریخ و ایجنڈہ وغیرہ کا تعین کیا گیا۔
یہ بات بھی دلچسپی کا سبب ہو گی کہ انہی ملاقاتوں کے درمیان پاکستانی اور متحدہ عرب امارات کے کاروباری وفد کی ملاقات’’ سونی ٹی وی‘‘ کی ہوسٹ تریشکھا اشیش تری پاٹھی سے بھی کروائی گئی اور یہ تجویز سامنے رکھی گئی کہ اسی نیٹ ورک سے اس میزبان کا ایک شو کروایا جائے جس میں آزادی صحافت کے بہانے دو قومی نظریہ پر تنقید کی جائے۔
غیر مصدقہ ذرائع کی اطلاعات کے مطابق میر شکیل الرحمان اسی’’کاروباری‘‘ ڈیل کے کچھ کاغذات پر دستخط کرنے کے لئے ایک خفیہ دورے پر پاکستان واپس پہنچ چکے ہیں۔
قصہ کچھ ’’ بول گروپ اور جیو ٹی وی کے تنازعے کا۔۔۔۔۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ’’ جنگ گروپ‘‘ کے انڈین خفیہ ادارے را کے ساتھ تعلقات پر سے 2013ء میں اس وقت پردہ اٹھا جب ستمبر میں مؤقر بھارتی روزنامہ ہندوستان ٹائمز میں’’بول ٹی وی‘‘کے حوالے سے ایک خبر شائع ہوئی۔ اس خبر میں دعوی کیا گیا تھا کہ ’’بول ٹی وی ‘‘کے پیچھے بھارتی انڈر ورلڈ کے ڈان داؤد ابراہیم کا سرمایہ ہے۔ اس خبر نے ایسی سنسنی پھیلائی کہ جلد ہی متاثرہ فریق نے بھارتی روزنامہ’’ ہندوستان ٹائمز ‘‘کو عدالتی کاروائی کی دھمکی دے دی اور لیگل نوٹس بھجوا دیا۔ جلد ہی یہ خبر ہندوستان ٹائمز نے واپس لے لی اور اس خبر کی پہلے صفحے پر اشاعت کی تحقیقات شروع کر دی ۔
bol tv
جنگ گروپ کی ایماء پر بھارتی اخبار میں نئے آنے والے بول میڈیا گروپ کے خلاف شائع جانے والی خبریں,  بعد میں اخبار نے معذرت کر لی
اس تحقیقاتی کمیٹی میں ہندوستان ٹائمز کے غیر ملکی امور سے متعلق خبروں کے ایڈیٹر پرمیت پال چودھری اور ہندوستان ٹائمز کے قانونی مشیر کرنجا والا اینڈ کو بھی شامل تھے۔ ہندوستان ٹائمز کی تحقیقات سے جو بات کھل کر سامنے آء وہ یہ تھی کہ اس خبر کی اشاعت کے پیچھے جنگ/جیو گروپ کے سربراہ میر شکیل الرحمان کا ہاتھ تھا جن کے ایک انڈین خفیہ ایجنسی(را) سے گہرے تعلقات اس بات کا سبب بنے کہ ہندوستان ٹائمز کے سینئر ایڈیٹر نے ایک ایسی خبر اپنے فرنٹ پیج پر شائع کر دی جس کا کوئی سورس ہی موجود نہ تھا بلکہ یہی بے بنیاد خبر ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے سے کئی قبل قبل جیو گروپ کے اخبار جنگ میں چھپ چکی تھی۔ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر کے پاس اس بات کا بھی کوئی تسلی بخش جواب موجود نہ تھا کہ انہوں نے اس بات کے حوالے اور وضاحت کے بغیر کہ، یہ خبر پہلے روزنامہ جنگ میں چھپ چکی ہے اور جنگ گروپ اور بول گروپ کے مابین شدید قسم کی کاروباری رقابت موجود ہے ، اپنے اخبار  کےفرنٹ پیج پر کیوں چھاپی؟
ہندوستان ٹائمز میں شائع ہونے والی خبر میں بول ٹی وی کے ساتھ ساتھ عقیل کریم ڈھیڈھی کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا اور کہا گیا تھا کہ کراچی اسٹاک ایکسچینج کے اس بے تاج بادشاہ کے تعلقات بھی داؤد ابراہیم کے ساتھ ہیں جبکہ اصل حقیقت محض اتنی تھی کہ عقیل کریم کی میر شکیل الرحمان کے سمدھی یعنی بیٹی کے سسر جہانگیر صدیقی کے ساتھ کاروباری مسابقت و اختلافات تھے جس کی وجہ سے جنگ/جیو گروپ عقیل کریم کے خلاف مہم بھی چلا رہا تھا۔ تحقیقات سے پتہ چلا کہ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر (غالبا سنجے نارائن) کو قابو کرنے کے لئے میر شکیل الرحمان نے بھارتی خفیہ ایجنسی میں روابط کو استعمال کرتے ہوئے ستمبر میں ممبئی کے گرینڈ حیات ہوٹل میں ایک میٹنگ کا اہتمام کیا۔ اس ملاقات میں جنگ گروپ کی طرف سے خود جہانگیر صدیقی نے شرکت کی جبکہ ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر کے ساتھ ساتھ’’ را‘‘ کا رابطہ اہلکار بھی میٹنگ میں موجود تھا جبکہ میر شکیل الرحمان جو اس وقت لندن میں تھے، بذریعہ ٹیلی فون اس میٹنگ میں شریک ہوئے۔. میٹنگ میں طے پایا کہ پاکستانی اور بھارتی وزرائے اعظم کی پہلے سے طے شدہ ملاقات کے پس منظر میں داؤد ابراہیم کا نام’’ بول ٹی وی‘‘ اور عقیل کریم سے جوڑنا دونوں فریقین کے لئے بہتر رہے گا۔چنانچہ ستمبر کی شام اس سورس لیس خبر کو ’’او کے ‘‘ کردیا گیا اور اگلے ہی دن یہ خبر ہندوستان ٹائمز کے صفحہ اول کی زینت بنی۔ ہندوستان ٹائمز کی یہ اندرونی تحقیقاتی رپورٹ اکتوبر میں اسی اخبار کے چیئر مین کو پیش کر دی گئی جنہوں نے بول ٹی وی کے خلاف شائع ہونے والی خبر کو واپس لینے اور انٹر نیٹ ایڈیشن سے یہ خبر اتارنے کا حکم جاری کیا اور اس حوالے سے ایک تصیح بھی شائع کی۔
اب اس سارے تناظر میں آپ موجودہ سیاسی صورتحال، انقلاب مارچ، آزادی مارچ، پاکستان کی مسلح افواج کے حوالے سے جیو نیوز اور اس سے وابستہ صحا فیوں کا مؤقف دیکھیں اور رائے سنیں اور ڈاکٹر طاہر القادری، عمران خان اور مسلح افواج کے خلاف جو زہر یہ نیٹ ورک اگل رہا ہے اس پر غور کریں تو بات واضح ہو جائے گی کہ موجودہ مودی’’نواز‘‘ حکومت جیو نیٹ ورک کی پشت پناہی اور عمران خان اور طاہر القادری کی مخالفت اور ان کے حامیوں اور کارکنوں کا قتل عام کس کے اشارے پر کر رہے ہیں، اور یہ سیاسی و مذہبی جماعتوں کے حمایتی و اتحادی کس قسم کی موروثی ‘‘جمہوریت’’ کے حق میں مظاہرے کر رہے ہیں؟آپ کو سارا کھیل سمجھ میں آ جائے گا۔

نوٹ:اس رپورٹ کے حوالے سے جنگ گروپ اور جیو ٹی وی انتظامیہ کچھ کہنا چاہیں یا اپنا موقف دینا چاہیں تو ہمارے صفحات حاضر ہیں ۔
ایڈیٹر فیکٹ

Displaying 2 Comments
Have Your Say
  1. akbar says:

    ma heeran hoon itna fact samna ana ka aad bhe koi action ku nahee leta. buhat achi story hay aur hum na aaj sa jang aur geo ka boycot kur deya hay..aap bhe aisa he karian.
    akbar sialkot

  2. ali says:

    i think this is shame for media industry persons and pemera who can not control the management. Jang and Geo staff should resign this institute.bad for us. Mir Shakeel and Mir Ibrahim sold his father and grand father name……shame….shame….
    ali mazhar
    Toronto

Leave a comment